صحيح مسلم
كِتَاب السَّلَامِ -- سلامتی اور صحت کا بیان
35. باب تَحْرِيمِ الْكِهَانَةِ وَإِتْيَانِ الْكُهَّانِ:
باب: کہانت کی حرمت اور کاہنوں کے پاس جانے کا حرمت۔
حدیث نمبر: 5815
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ وَهُوَ ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ . ح وحدثنا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ كِلَاهُمَا، عَنْ يَحْيَي بْنِ أَبِي كَثِير ٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السُّلَمِيِّ ، عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَعْنَى حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَة، عَنْ مُعَاوِيَةَ، وَزَادَ فِي حَدِيثِ يَحْيَي بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ: قُلْتُ: وَمِنَّا رِجَالٌ يَخُطُّونَ، قَالَ: كَانَ نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ يَخُطُّ فَمَنْ وَافَقَ خَطَّهُ فَذَاكَ.
حجاج صواف اور اوزاعی، دونوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انھوں نے ہلال بن ابی میمونہ سے، انھوں نے عطا ء بن یسار سے، انھوں نے معاویہ بن حکم سلمہ رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زہری کی ابو سلمہ سے اور ان کی معاویہ سے روایت کردہ حدیث کے مانند روایت کی، اور یحییٰ بن ابی کثیر کی حدیث میں یہ الفا ظ زائد بیان کیے، کہا: میں نے عرض کی: ہم میں ایسے لو گ ہیں جو (مستقبل کا حال بتا نے کے لیے) لکیریں کھینچتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " انبیاء علیہ السلام میں سے ایک نبی تھے جو لکیریں کھینچتے تھے، جو ان کی لکیروں سے موافقت کرگیا تو وہ ٹھیک ہے۔"
امام صاحب اپنے تین اساتذہ کی دو سندوں سے یہی روایت بیان کرتے ہیں، یحییٰ بن ابی کثیر کی روایت میں ہے کہ حضرت معاویہ بن حکم رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، میں نے کہا، ہم میں سے کچھ لوگ لکیریں کھینچتے ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انبیاء میں سے ایک نبی لکیریں کھینچتے تھے تو جو ان کے طریقہ کے مطابق لکیرین کھینچے گا وہ ٹھیک ہو گا۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5815  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ریت پر لکیریں کھینچ کر تخمین و تجرباتی باتوں کے ذریعہ حالات معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے،
جن کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی،
حضرت دانیال یا حضرت ادریس کو یہ علم معجزاتی طور پر ملا تھا اور کسی اور کے لیے یہ ممکن نہیں ہے،
اس لیے ان کی موافقت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،
اس طرح آپ نے ایک ناممکن چیز سے تشبیہ دے کر اس کی حرمت کی طرف اشارہ فرمایا،
اسی کو علم رمل کا نام دیا جاتا ہے،
کیونکہ لکیریں ریت میں کھینچتے ہیں،
بعض حضرات کا خیال ہے،
یہ علم معجزاتی طور پر چھ انبیاء کو دیا گیا تھا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5815