صحيح مسلم
كِتَاب الْفَضَائِلِ -- انبیائے کرام علیہم السلام کے فضائل
24. باب صِفَةِ شَعْرِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصِفَاتِهِ وَحِلْيَتِهِ
باب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کی تعریف اور آپ کے حلیہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 6062
حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ أَبِي مُزَاحِمٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ زِيَادٍ ، قَالَ مَنْصُورٌ: حَدَّثَنَا، وقَالَ ابْنُ جَعْفَرٍ: أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ يَعْنِيَانِ ابْنَ سَعْدٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: " كَانَ أَهْلُ الْكِتَابِ يَسْدِلُونَ أَشْعَارَهُمْ، وَكَانَ الْمُشْرِكُونَ يَفْرُقُونَ رُءُوسَهُمْ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ مُوَافَقَةَ أَهْلِ الْكِتَابِ فِيمَا لَمْ يُؤْمَرْ بِهِ، فَسَدَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاصِيَتَهُ، ثُمَّ فَرَقَ بَعْدُ ".
ابراہیم بن سعد نے ابن شہاب سے، انھوں نے عبیداللہ بن عبداللہ سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: کہ اہل کتاب یعنی یہود اور نصاریٰ اپنے بالوں کو پیشانی پر لٹکتے ہوئے چھوڑ دیتے تھے (یعنی مانگ نہیں نکالتے تھے) اور مشرک مانگ نکالتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب کے طریق پر چلنا دوست رکھتے تھے جس مسئلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی حکم نہ ہوتا (یعنی بہ نسبت مشرکین کے اہل کتاب بہتر ہیں تو جس باب میں کوئی حکم نہ آتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب کی موافقت اس مسئلے میں اختیار کرتے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی پیشانی پر بال لٹکانے لگے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مانگ نکالنے لگے۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، اہل کتاب اپنے بال کھلے چھوڑتے تھے اور مشرک لوگ اپنے سروں کی مانگ نکالتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن کاموں میں حکم نہ آتا، اہل کتاب کی موافقت کو پسند کرتے تھے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پہلے) پیشانی پر بال لٹکائے، پھر بعد میں مانگ نکالنے لگے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3632  
´کان کی لو سے بال نیچے رکھنے اور چوٹیاں رکھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اہل کتاب اپنے بالوں کو پیشانی پر لٹکائے رکھتے تھے، اور مشرکین مانگ نکالا کرتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب کی موافقت پسند فرماتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی پیشانی پر بال لٹکائے رکھتے، پھر بعد میں آپ مانگ نکالنے لگے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3632]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
مکہ مکرمہ میں مشرکین کی اکثریت تھی۔
رسول اللہ ﷺ ان سے امتیاز کے لئے اہل کتا ب کا انداز اختیار فرما لیتے تھے۔
جب رسول ﷺ نے ہجرت فرمائی تو مدینہ میں موجود کثیر اہل کتاب سے فرق کرنے کے لئے دوسرا انداز اختیار فرمایا۔

(2)
رسول اللہ ﷺ کا ہر عمل وحی کی روشنی میں ہوتا تھا اس لئے بال مانگ نکالے بغیر کھلے چھوڑنا منسوخ ہے اور مانگ نکالنا مسنون اور ثواب ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3632   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4188  
´بال میں مانگ نکالنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اہل کتاب اپنے بالوں کا «سدل» کرتے یعنی انہیں لٹکا ہوا چھوڑ دیتے تھے، اور مشرکین اپنے سروں میں مانگ نکالتے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جن باتوں میں کوئی حکم نہ ملتا اہل کتاب کی موافقت پسند فرماتے تھے اسی لیے آپ اپنی پیشانی کے بالوں کو لٹکا چھوڑ دیتے تھے پھر بعد میں آپ مانگ نکالنے لگے۔ [سنن ابي داود/كتاب الترجل /حدیث: 4188]
فوائد ومسائل:
واضح ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کا مانگ نکالنا اللہ کے حکم سےتھا، اگرچہ مشرکین بھی نکالا کرتے تھے۔
پس مشرکین اور کفار کی وہی مشابہت نا جائز ہے جو ان کی دینی اور خاص قومی علامت ہو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4188   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6062  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
يسدلون:
پیشانی پر بال لٹکاتے،
کھلے چھوڑتے۔
(2)
يفرقون:
مانگ نکالتے۔
فوائد ومسائل:
آغاز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب کو مانوس کرنے کے لیے جن کاموں میں صریح حکم نہ آتا،
وہاں ان کی موافقت کرتے،
لیکن جب انہوں نے ہٹ دھرمی اور ضد و عناد کے وطیرہ پر اصرار کیا اور اکثر مشرکین مسلمان ہو گئے تو آپ اہل کتاب کی مخالفت کرنے لگے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6062