صحيح البخاري
كِتَاب الْجَنَائِزِ -- کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
19. بَابُ الْكَفَنِ فِي ثَوْبَيْنِ:
باب: دو کپڑوں میں کفن دینا۔
حدیث نمبر: 1265
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ , قَالَ:" بَيْنَمَا رَجُلٌ وَاقِفٌ بِعَرَفَةَ إِذْ وَقَعَ عَنْ رَاحِلَتِهِ فَوَقَصَتْهُ أَوْ قَالَ: فَأَوْقَصَتْهُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَكَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْنِ، وَلَا تُحَنِّطُوهُ وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ، فَإِنَّهُ يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّيًا".
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد نے، ان سے ایوب نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک شخص میدان عرفہ میں (احرام باندھے ہوئے) کھڑا ہوا تھا کہ اپنی سواری سے گر پڑا اور سواری نے انہیں کچل دیا۔ یا ( «وقصته‏» کے بجائے یہ لفظ) «أوقصته» کہا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے فرمایا کہ پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے کر دو کپڑوں میں انہیں کفن دو اور یہ بھی ہدایت فرمائی کہ انہیں خوشبو نہ لگاؤ اور نہ ان کا سر چھپاؤ۔ کیونکہ یہ قیامت کے دن لبیک کہتا ہوا اٹھے گا۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 434  
´حالت احرام میں جو گر کر فوت ہو جائے اسے بھی پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دینا`
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اپنی سواری سے گر کر جاں بحق ہو گیا اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور اسی کے دو کپڑوں میں کفن دے دو . . . [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 434]
لغوی تشریح:
«فِي الَّذِي سَقَطَ عَنْ رَاحِلَتِهِ» یہ ایک صحابی رسول تھے۔ حج کا احرام باندھے مقام عرفہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ دوران احرام میں ہی اپنے اونٹ سے گر گئے جس سے ان کی گردن ٹوٹ گئی اور وفات پا گئے۔
«‏‏‏‏بِمَاءِ وَسِدْر» بیری کے پتوں کا طریقہ استعمال تین طرح سے ہے: ① پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ بیری کے پتوں کو پانی میں ڈال کر اسے اتنا زور سے ہلائیں کہ اس کا جھاگ باہر نکل آئے۔ اس پانی سے میت کے جسم کو مل کر غسل دیا جائے۔
② دوسرا طریقہ یہ ہے کہ پتوں کو پانی میں خوب ابالیں۔
③ اور تیسرا طریقہ یہ ہے کہ بیری کے پتوں کو جلا کر راکھ بنالی جائے اور اسے میت کے جسم پر خوب ملا جائے، پھر خالص اور صاف پانی سے میت کو اچھی طرح صاف کیا جائے۔ یہ غسل دینا ایک ہی مرتبہ ہو گا۔
«كَفّنُوهُ» ‏‏‏‏ تکفین (باب تفعيل) سے امر کا صیغہ ہے۔
فوائد و مسائل:
اس حدیث سے درج ذیل مسائل ثابت ہوتے ہیں:
➊ عرفات میں سواری پر جانا جائز ہے۔
➋ اونٹ کے سواری بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔
➌ حالت احرام میں جو آدمی گر کر فوت ہو جائے اسے بھی پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دیا جائے۔
➍ انہی احرام کے کپڑوں میں اسے دفن کیا جائے۔ نیا کفن خریدنے کی ضرورت نہیں۔ اس کا سر نہ ڈھانپا جائے اور نہ خوشبو ہی لگائی جائے۔ سر ننگا رکھنے اور خوشبو نہ لگانے کی حکمت یہ ہے کہ قیامت کے روز یہ اسی حالت «لبيك اللهم لبيك» پڑھتا ہوا اٹھے گا۔ [صحيح البخاري، جزاء الصيد، باب سنة المحرم إذا مات، حديث: 1851] بیری کے پتوں کے استعمال میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ ایک تو اس سے بدن صاف اور نرم ہو جاتا ہے اور دوسرا اس پر خرچ بھی نہیں آتا۔ اس دور میں یہ سب سے آسان طریقہ تھا۔ صابن وغیرہ کا استعمال غالباً نہ ہونے کے برابر تھا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 434   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3084  
´محرم مر جائے تو کیا کیا جائے؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ احرام کی حالت میں ایک شخص کی اونٹنی نے اس کی گردن توڑ ڈالی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو پانی اور بیر کی پتی سے غسل دو، اور اس کے دونوں کپڑوں ہی میں اسے کفنا دو، اس کا منہ اور سر نہ ڈھانپو کیونکہ وہ قیامت کے دن لبیک کہتا ہوا اٹھایا جائے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3084]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1) (اوقصت)
گردن توڑدی کا مطلب یہ ہے کہ وہ اونٹ پر سے سر کے بل گرا جس سے اس کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی۔
دوسری روایت میں (اعقصت)
کا لفظ ہے جس کے معنی "موڑدینا" ہیں۔
کیونکہ سر کے بل گرنے سے ہڈی بل کھا جاتی اور ٹوٹ جاتی ہے اور اس سے موت واقع ہوتی ہے۔

(2)
احرام کی حالت میں فوت ہونے والے شخص کو بھی غسل اور کفن دیکر جنازہ پڑھ کر دفن کرنا چاہیے۔

(3)
احرام کی حالت میں فوت ہونے والے کو احرام کی چادروں ہی میں دفنایا جائے۔
اور احرام کی پابندیوں کے مطابق اس کا سر نہ ڈھانپا جائے، نہ اسے خوشبو لگائی جائے۔

(4)
جو شخص نیکی کے کاموں میں مشغول ہونے کی حالت میں فوت ہوا، وہ قیامت کے دن اسی حال میں قبر سے اٹھے گا جس سے لوگوں کو اس کی نیکی کا علم ہوجائے گا۔
یہ اللہ کی طرف سے اس کی عزت افزائی ہوگی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3084   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 951  
´محرم حالت احرام میں مر جائے تو کیا کیا جائے؟`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ نے دیکھا کہ ایک شخص اپنے اونٹ سے گر پڑا، اس کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ مر گیا وہ محرم تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور اسے اس کے انہی (احرام کے) دونوں کپڑوں میں کفناؤ اور اس کا سر نہ چھپاؤ، اس لیے کہ وہ قیامت کے دن تلبیہ پکارتا ہوا اٹھایا جائے گا۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 951]
اردو حاشہ: 1؎:
یہ قول حنفیہ اورمالکیہ کا ہے،
ان کی دلیل ابوہریرہ کی حدیث ' إذا مات ابن آدم انقطع عمله 'ہے اورباب کی حدیث کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ ممکن ہے نبی اکرمﷺ کو وحی کے ذریعہ یہ بتادیا گیا ہوکہ یہ شخص مرنے کے بعداپنے احرام ہی کی حالت میں باقی رہے گا،
یہ خاص ہے اسی آدمی کے ساتھ،
لیکن کیا اس خصوصیت کی کوئی دلیل ہے؟،
ایسی فقہ کا کیا فائدہ جو قرآن وسنت کی نصوص کے ہی خلاف ہو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 951   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3241  
´محرم مر جائے تو اس کے ساتھ کیا کیا جائے؟`
اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں ایک محرم کو اس کی اونٹنی نے گردن توڑ کر ہلاک کر دیا، اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا تو آپ نے فرمایا: اسے غسل دو اور کفن پہناؤ (لیکن) اس کا سر نہ ڈھانپو اور اسے خوشبو سے دور رکھو کیونکہ وہ لبیک پکارتا ہوا اٹھایا جائے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3241]
فوائد ومسائل:
حالت احرام میں موت کی بڑی فضیلت ہے۔
کہ اس کا عمل قیامت تک جاری رہے گا۔
اور اس پر قیاس ہے۔
کہ اگر کوئی طالب علم یا جہاد میں فوت ہوجائے۔
اور وہ اپنے اس عمل کوپورا کرنے کا عزم رکھتا ہو تو اسے ان شاء اللہ قیامت تک کےلئے اس کا ثواب ملتا رہے گا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3241   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1265  
1265. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہےمانھوں نےفرمایا:ایک شخص مقام عرفہ میں ٹھہرا ہوا تھا کہ اچانک اپنی سواری سےگرا، جس سے اس کی گردن ٹوٹ گئی۔ نبی کریم ﷺ نےفرمایا:اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے کردو کپڑوں میں کفن دو مگر حنوط (ایک خوشبو) نہ لگانا اور نہ اس کا سر ڈھانپنا، کیونکہ یہ قیامت کےدن لبیك کہتا ہوا اٹھایا جائے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1265]
حدیث حاشیہ:
ثابت ہوا کہ محرم کو دو کپڑوں میں دفنایا جائے۔
کیونکہ وہ حالت احرام میں ہے اور محرم کے لیے احرام کی صرف دو ہی چادریں ہیں، برخلاف ا س کے دیگر مسلمانوں کے لیے مرد کے لیے تین چادریں اور عورت کے لیے پانچ کپڑے مسنون ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1265   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1265  
1265. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہےمانھوں نےفرمایا:ایک شخص مقام عرفہ میں ٹھہرا ہوا تھا کہ اچانک اپنی سواری سےگرا، جس سے اس کی گردن ٹوٹ گئی۔ نبی کریم ﷺ نےفرمایا:اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے کردو کپڑوں میں کفن دو مگر حنوط (ایک خوشبو) نہ لگانا اور نہ اس کا سر ڈھانپنا، کیونکہ یہ قیامت کےدن لبیك کہتا ہوا اٹھایا جائے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1265]
حدیث حاشیہ:
(1)
سنن نسائی کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اسے انہی دو کپڑوں میں کفن دیا جائے جن میں اس نے احرام باندھا تھا۔
(سنن النسائی، الجنائز:
حدیث: 1905)

امام بخاری ؒ کا اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے مقصود یہ ہے کہ کفن کے لیے تین کپڑوں کا ہونا شرط نہیں، البتہ مستحب ضرور ہے، جیسا کہ جمہور کا موقف ہے۔
(2)
کفن کی تین اقسام ہیں:
٭ کفن ضرورت جو فرض ہے کہ ایک ہی چادر جو تمام جسم کے لیے ساتر ہو۔
٭ کفن کفایہ:
اس کے لیے دو چادریں کافی ہیں۔
٭ کفن سنت:
اس میں تین چادریں ہیں۔
اس بات پر اجماع ہے کہ کم از کم ایک چادر ضرور ہونی چاہیے جس سے میت کو ڈھانپا جا سکے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1265