صحيح مسلم
كِتَاب الْفَضَائِلِ -- انبیائے کرام علیہم السلام کے فضائل
36. باب وُجُوبِ اتِّبَاعِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنا واجب ہے۔
حدیث نمبر: 6112
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ: " أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ، خَاصَمَ الزُّبَيْرَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي شِرَاجِ الْحَرَّةِ الَّتِي يَسْقُونَ بِهَا النَّخْلَ، فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ: سَرِّحْ الْمَاءَ يَمُرُّ، فَأَبَى عَلَيْهِمْ، فَاخْتَصَمُوا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلزُّبَيْرِ: اسْقِ يَا زُبَيْرُ، ثُمَّ أَرْسِلِ الْمَاءَ إِلَى جَارِكَ، فَغَضِبَ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ، فَتَلَوَّنَ وَجْهُ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: يَا زُبَيْرُ اسْقِ، ثُمَّ احْبِسْ الْمَاءَ، حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الْجَدْرِ، فَقَالَ الزُّبَيْرُ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَحْسِبُ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِي ذَلِكَ: فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا سورة النساء آية 65.
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے انھیں حدیث سنائی کہ انصار میں سے ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حرہ میں واقع پانی کی ان گزرگاہوں (برساتی نالیوں) کے بارے میں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے جھگڑا کیا جن سے وہ کھجوروں کو سیراب کرتے تھے۔انصاری کہتا تھا: پانی کو کھلا چھوڑ دو وہ آگے کی طرف گزر جائے، انھوں نے ان لوگوں کی بات ماننے سے انکار کردیا۔وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھگڑا لے آئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زبیر رضی اللہ عنہ (کونرمی کی تلقین کرتے ہوئے ان) سے کہا: "تم (جلدی سے اپنے باغ کو) پلاکر پانی اپنے ہمسائے کی طرف روانہ کردو۔"انصاری غضبناک ہوگیا اورکہنے لگا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اس لئے کہ وہ آپ کا پھوپھی زاد ہے۔ (صدمے سے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کارنگ بدل گیا، پھر آپ نے فرمایا: "زبیر! (باغ کو) پانی دو، پھر اتنی دیر پانی کو روکو کہ وہ کھجوروں کے گرد کھودے گڑھے کی منڈیر سے ٹکرانے لگے"زبیر رضی اللہ عنہ نےکہا: اللہ کی قسم! میں یقیناً یہ سمجھتا ہوں کہ یہ آیت: "نہیں!آپ کےرب کی قسم!وہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے"اسی (واقعے) کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
حضرت عبداللہ بن زبیر بیان رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری آدمی کا، حرہ کی نالیوں کے بارے میں، جن سے وہ نخلستان کو پانی پلاتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس، حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ سے جھگڑا ہوا، انصاری نے کہا، پانی کو چھوڑئیے، وہ بہتا رہے ‎، حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے انکار کیا، رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جھگڑا پیش ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے زبیر! بقدر ضرورت زمین کو سیراب کر لواور پھر پانی پڑوسی کے لیے چھوڑ دو۔ انصاری عصہ میں آ گیااور کہنے لگا، اے اللہ کے رسول! یہ فیصلہ اس لیے ہو ا کہ یہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کا پھوپھی زاد ہے! نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے زبیر! زمین کو پانی پلاؤ، پھر پانی روک لو حتی کہ وہ منڈیر (روک) تک پہنچ جائے۔ حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، اللہ کی قسم! میرے خیال میں یہی آیت اس سلسلہ میں اتری ہے، بات وہ نہیں جو یہ سمجھتے ہیں، تیرے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے، جب تک اپنے اختلافات میں آپ کو حکم تسلیم نہ کریں، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کے بارے میں، اپنے دلوں میں کسی قسم کی تنگی محسوس نہ کریں۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2480  
´وادیوں سے آنے والے پانی کا استعمال کیسے کیا جائے۔`
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک انصاری ۱؎ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حرہ کے نالے کے سلسلے میں جس سے لوگ کھجور کے درخت سیراب کرتے تھے، (ان کے والد) زبیر رضی اللہ عنہ سے جھگڑا کیا، انصاری کہہ رہا تھا: پانی کو چھوڑ دو کہ آگے بہتا رہے، زبیر رضی اللہ عنہ نہیں مانے ۲؎ بالآخر دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس معاملہ لے گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زبیر (پانی روک کر) اپنے درختوں کو سینچ لو پھر اپنے پڑوسی کے لیے پانی چھوڑ دو، انصاری نے یہ سنا تو ناراض ہو گیا اور بولا: اللہ کے رسول۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2480]
اردو حاشہ:
فوائد و  مسائل:

(1)
جس طرف سے پانی آ رہا ہو اس طرف کے باغ اور کھیت کو پہلے پانی لینے کا حق ہے۔

(2)
نبئ اکرم ﷺنے پہلے جو فیصلہ دیا تھا اس میں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو ان کا جائزحق دین کےساتھ ساتھ فریق ثانی کی ضرورت کوبھی مدنظر رکھتےہوئے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کوتھوڑا سا ایثار کرنے کا مشورہ دیا تھا اس انداز کی صلح شرعاً درست ہے۔

(3)
رسول اللہ ﷺکا دوسرا فرمان انصاف کے مطابق فیصلہ تھا جس میں انصاری کودی گئی رعایت واپس لے لی گئی اس میں اس کو ایک لحاظ سے سزا دیتےہوئے انصاف کو قائم رکھا گیا۔

(4)
غصے کی حالت میں فیصلہ نہیں کرنا چاہیے تاہم رسول اللہ ﷺمعصوم تھے وہ غصےکی حالت میں بھی غلط فیصلہ نہیں دیتے تھے۔

(5)
رسول اللہﷺ پرایمان میں صرف ظاہری اطاعت شامل نہیں بلکہ دل کی پوری آمادگی سےاطاعت اورہرقسم کےشک وشبہ سےمکمل اجتناب ضروری ہے۔

(6)
کسی اختلافی مسئلےمیں جب حدیث نبوی آ جائے تو سے تسلیم کرنا فرض ہے۔

(7)
قرآن مجید کی طرح حدیث نبوی کی تعمیل بھی فرض ہے۔

(8)
کھجور کے درخت کے اردگرد پانی کےلیے جگہ بنائی جاتی ہے جسے تھالہ کہتے ہیں۔
درخت کا تھالہ بھر جائے تو پانی دوسرے درخت کی طرف چھوڑ دیا جائے۔
کھیت میں پانی دینے کےلیےاتنا پانی روکنا چاہیے کہ پاوں کےٹخنے تک پانی کھڑا ہو جائے جیسے کہ اگلی حدیث میں صراحت ہے۔

(9)
آیت اس بارے میں نازل ہوئی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ واقعہ اوراس قسم کے دوسرے واقعات اس حکم میں داخل ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2480   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3637  
´قضاء سے متعلق (مزید) مسائل کا بیان۔`
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے زبیر رضی اللہ عنہ سے حرۃ کی نالیوں کے سلسلہ میں جھگڑا کیا جس سے وہ سینچائی کرتے تھے، انصاری نے زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا: پانی کو بہنے دو، لیکن زبیر رضی اللہ عنہ نے اس سے انکار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم اپنے کھیت سینچ لو پھر پانی کو اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑ دو یہ سن کر انصاری کو غصہ آ گیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! یہ آپ کے پھوپھی کے لڑکے ہیں نا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا اور آپ نے زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3637]
فوائد ومسائل:

کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین باوجود صحابی ہونے کے بشری خطائوں کے مرتکب ہوجاتے تھے۔
اور وہ کسی طرح معصوم نہ تھے۔
ان جزوی اور انفرادی تقصیرات کے باوجود کرہ ارض پر پائے جانے والے تمام طبقات انسانی میں ان صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کا شرف وفضل غیر متنازع ہے۔
کہ اللہ عزوجل نے انھیں اپنے نبی کریمﷺ کی صحبت اور اپنے دین کی نصرت تقویت اور اشاعت کےلئے منتخب فرمایا تھا۔


قدرتی ندی نالوں اور دریائوں کے پانی کی تقسیم کا یہی شرعی حل ہے۔
کہ اولا مصالحت سے تمام شرکاء اعتدال سے استفادہ کریں۔
لیکن اگر کوئی بعد والا ہٹ دھرمی دکھائے تو پھر پہلے والے کا حق فائق ہے۔
اور جائز ہے کہ وہ اپنے کھیتوں کو خوب سیراب کرکے بعد والے کےلئے پانی چھوڑے۔


سورہ نساء کی یہ آیت مبارکہ (فَلَا وَرَبِّكَ) مسلمانو ں کے شرعی اور معاشرتی تمام امور کومحیط اور شامل ہے۔
اور واجب ہے کہ قرآن وسنت کے فیصلوں کو برضا ورغبت تسلیم کیا جائے ورنہ سرے سے ایمان ہی خطرے میں ہوسکتا ہے۔
عافانا اللہ منه و رزقنا اتباعه۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3637   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6112  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
شراج:
شرج کی جمع ہے،
نالی۔
(2)
سرح الماء:
پانی چھوڑ دیجئے،
اسے روکئے نہیں۔
فوائد ومسائل:
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی زمین پہلے واقع تھی اور اس انصاری صحابی کی زمین ان کے بعد تھی،
اس لیے پہلے حق حضرت زبیر کا تھا،
جب حضرت زبیر نے کچھ پانی لگا لیا تو انصاری نے کہا،
پانی میری طرف آنے دیجئے،
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا،
میری ضرورت پوری نہیں ہوئی،
اس لیے میں ابھی نہیں چھوڑوں گا،
جھگڑا،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوا تو آپ نے زبیر کے حق کی بنا پر انہیں کہا،
بقدر کفایت پانی لگا لو،
رکاوٹوں تک پانی نہ پہنچاؤ،
پھر اپنے پڑوسی کے لیے پانی چھوڑ دو،
اس طرح آپ نے صلح جوئی کے لیے یہ مشورہ دیا،
یہ اصولی فیصلہ نہ تھا،
لیکن انصاری چاہتا تھا،
اس کی رعایت کی جائے،
اس لیے غصہ میں آ گیا اور ایسی بات کہہ دی،
جو ایک مسلمان کے لیے زیبا نہیں ہے،
بلکہ کفر و ارتداد کا باعث ہے،
لیکن چونکہ ابھی ابتدائی حالات تھے اور اس نے غیر شعوری طور پر بلا سوچے سمجھے یہ بات کہہ دی تھی،
اس لیے آپ نے عفوودرگزر سے کام لیا اور اللہ تعالیٰ نے اس موقعہ پر پیغمبر کے مقام و مرتبہ کی تعیین کرتے ہوئے یہ ہدایت فرمائی کہ ایمان دار کے لیے ضروری ہے،
وہ آپ کا فیصلہ دل و جان سے قبول کرے اور اس کے بارے میں زبان پر تو کیا لانا ہے،
دل میں بھی ناگواری محسوس نہ کرے،
چونکہ انصاری نے جذبات کی رو میں بہہ کر اپنی رعایت کو حضرت زبیر کی رعایت سمجھا،
اس لیے آپ نے پھر دو ٹوک فیصلہ سنا دیا اور پہلے زمین والے کے حق کی تعیین کر دی کہ وہ منڈیر بھرنے تک پانی لگانے کا حقدار ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6112