صحيح مسلم
كِتَاب الْفَضَائِلِ -- انبیائے کرام علیہم السلام کے فضائل
37. باب تَوْقِيرِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَرْكِ إِكْثَارِ سُؤَالِهِ عَمَّا لاَ ضَرُورَةَ إِلَيْهِ أَوْ لاَ يَتَعَلَّقُ بِهِ تَكْلِيفٌ وَمَا لاَ يَقَعُ وَنَحْوِ ذَلِكَ:
باب: بے ضرورت مسئلے پوچھنا منع ہے۔
حدیث نمبر: 6121
وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَي بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَرْمَلَةَ بْنِ عِمْرَانَ التُّجِيبِيُّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، " أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ حِينَ زَاغَتِ الشَّمْسُ، فَصَلَّى لَهُمْ صَلَاةَ الظُّهْرِ، فَلَمَّا سَلَّمَ، قَامَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَذَكَرَ السَّاعَةَ، وَذَكَرَ أَنَّ قَبْلَهَا أُمُورًا عِظَامًا، ثُمَّ قَالَ: مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَسْأَلَنِي عَنْ شَيْءٍ، فَلْيَسْأَلْنِي عَنْهُ، فَوَاللَّهِ لَا تَسْأَلُونَنِي عَنْ شَيْءٍ إِلَّا أَخْبَرْتُكُمْ بِهِ، مَا دُمْتُ فِي مَقَامِي هَذَا، قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: فَأَكْثَرَ النَّاسُ الْبُكَاءَ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَكْثَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ يَقُولَ: سَلُونِي، فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ، فَقَالَ: مَنْ أَبِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: أَبُوكَ حُذَافَةُ، فَلَمَّا أَكْثَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْ أَنْ يَقُولَ: سَلُونِي، بَرَكَ عُمَرُ، فَقَالَ: رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا، قَالَ: فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَالَ عُمَرُ ذَلِكَ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوْلَى وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَقَدْ عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ آنِفًا، فِي عُرْضِ هَذَا الْحَائِطِ، فَلَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، قَالَ: قَالَتْ أُمُّ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُذَافَةَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُذَافَةَ: مَا سَمِعْتُ بِابْنٍ قَطُّ، أَعَقَّ مِنْكَ، أَأَمِنْتَ أَنْ تَكُونَ أُمُّكَ قَدْ قَارَفَتْ بَعْضَ مَا تُقَارِفُ نِسَاءُ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ، فَتَفْضَحَهَا عَلَى أَعْيُنِ النَّاسِ؟ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ: وَاللَّهِ لَوْ أَلْحَقَنِي بِعَبْدٍ أَسْوَدَ، لَلَحِقْتُهُ ".
یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، کہا: مجھے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورج ڈھلنے کے بعد باہر تشریف لائے اور انھیں ظہر کی نماز پڑھائی، جب آ پ نے سلام پھیرا تو منبر پر کھڑے ہوئے اور قیامت کا ذکر کیا اور بتایا کہ اس سے پہلے بہت بڑے بڑے امور وقوع پزیر ہوں گے، پھر فرمایا: "جو شخص (ان میں سے) کسی چیز کے بارے میں سوال کرنا چاہے تو سوا ل کرلے۔اللہ کی قسم!میں جب تک اس جگہ کھڑا ہوں، تم مجھ سے جس چیز کے بارے میں بھی سوال کروگے میں تمھیں اس کے بارے میں بتاؤں گا۔" حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا اور آپ نے بار بار کہنا شروع کردیا: "مجھ سے پوچھو"تو لوگ بہت روئے، اتنے میں عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرا باپ کون تھا؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمھارا باپ حذافہ تھا۔"پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ بار"مجھ سے پوچھو"فرمانا شروع کیا (اور پتہ چل گیا کہ آپ غصے میں کہہ رہے ہیں) توحضرت عمر رضی اللہ عنہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور کہنے لگے: ہم اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہیں۔جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت اختیار فرمالیا۔کہا: اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اچھا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے!ابھی ابھی اس دیوار کی چوڑائی کے اندرجنت اور دوزخ کو میرے سامنے پیش کیا گیا تو خیر اورشر کے بارے میں جو میں نے آج دیکھا، کبھی نہیں دیکھا۔" ابن شہاب نے کہا: عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے مجھے بتایاکہ عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ (کی یہ بات سن کر ان) کی والدہ نے عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ سے کہا: میں نے کبھی نہیں سنا کہ کوئی بیٹا تم سے زیادہ والدین کا حق پامال کرنے والا ہو۔کیا تم خود کو اس بات سے محفوظ سمجھتے تھے کہ ہوسکتا ہے تمہاری ماں سے بھی کوئی ایسا کام ہوگیا ہو کہ جو اہل جاہلیت کی عورتوں سے ہوجاتا تھا تو تم اس طرح (سوال کرکے) سب لوگوں کے سامنے اپنی ماں کو رسوا کردیتے؟عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم!اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرا نسب کسی حبشی غلام سے بھی ملا دیتے تو میں اسی کی ولدیت اختیار کرلیتا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب سورج ڈھل گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور انہیں ظہر کی نماز پڑھائی، جب سلام پھیرا تو منبر پر کھڑے ہو گئے اور قیامت کا تذکرہ کیا اور بتایا، اس سے پہلے بڑے بڑے واقعات ظاہر ہوں گے، پھر فرمایا: جو مجھ سے کسی چیزکے بارے میں سوال کرنا چاہے، وہ مجھ سے ا س کے بارے میں پوچھے، سو اللہ کا قسم! تم مجھ سے جس کے بارےمیں بھی سوال کرو گے، جب تک میں یہاں اس جگہ ہوں، اس کے بارےمیں، میں تمہیں بتا دوں گا، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی تو بہت روئے اور رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے بکثرت یہ فرمایا: مجھ سے پوچھ لو۔ تو حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ تعالی عنہ کھڑے ہوئے اور پوچھا میرا باپ کون ہے؟ اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حذافہ توجب رسول اللہ نےبار بار یہ فرمایا: مجھ سے پوچھ لو۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ گھٹنوں کے بل کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے، ہم اللہ کے رب ہونے، اسلام کے ضابظۂ حیات ہونے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ومطمئن ہیں تو جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ الفاظ کہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہلاکت قریب تھی، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، ابھی اس دیوار کی چوڑائی میں میرے سامنے جنت او ردوزخ پیش کی گئی، سو میں نے آج جیسا خیرو شر کا منظر نہیں دیکھا۔ ابن شہاب کہتے ہیں، مجھے عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا، عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ نے عبداللہ بن حذافہ سے کہا، میں تجھ جیسا نافرمان بیٹا کبھی نہیں سنا، کیا تم اس بات سے بے خوف تھے کہ تیری ماں نے کسی ایسی حرکت کا ارتکاب کیا ہو جس کا ارتکاب جاہلیت میں عورتیں کرتی تھیں، اس طرح تم اسے لوگوں کے سامنے رسوا کر دیتے،حضرت عبداللہ بن حذافہ نے کہا، اللہ کی قسم! اگر مجھے حبشی کا بچہ قرار دیتے تو میں اس کے ساتھ منسوب ہو جاتا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 93  
´شاگرد کو استاد کا ادب ہمہ وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے`
«. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ، فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ، فَقَالَ: مَنْ أَبِي؟ فَقَالَ: أَبُوكَ حُذَافَةُ، ثُمَّ أَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ سَلُونِي، فَبَرَكَ عُمَرُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، فَقَالَ: رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيًّا"، فَسَكَتَ . . .»
. . . (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے تو عبداللہ بن حذافہ کھڑے ہو کر پوچھنے لگے کہ یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حذافہ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باربار فرمایا کہ مجھ سے پوچھو، تو عمر رضی اللہ عنہ نے دو زانو ہو کر عرض کیا کہ ہم اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہیں (اور یہ جملہ) تین مرتبہ (دہرایا) پھر (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 93]

تشریح:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عرض کرنے کی منشا یہ تھی کہ اللہ کو رب، اسلام کو دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی مان کر اب ہمیں مزید کچھ سوالات پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ لوگ عبداللہ بن حذافہ کو کسی اور کا بیٹا کہا کرتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے آپ سے اپنی تشفی حاصل کر لی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دو زانو ہو کر بیٹھنے سے ترجمہ باب نکلا اور ثابت ہوا کہ شاگرد کو استاد کا ادب ہمہ وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے کیونکہ باادب بانصیب بے ادب بے نصیب، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مؤدبانہ بیان سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ جاتا رہا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 93   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3056  
´سورۃ المائدہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! میرا باپ کون ہے ۱؎ آپ نے فرمایا: تمہارا باپ فلاں ہے، راوی کہتے ہیں: پھر یہ آیت نازل ہوئی: «يا أيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم» اے ایمان والو! ایسی چیزیں مت پوچھا کرو کہ اگر وہ بیان کر دی جائیں تو تم کو برا لگے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3056]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ عبداللہ بن حذافہ سہمی ہیں،
سوال اس لیے کرنا پڑا کہ لوگ انہیں غیر باپ کی طرف منسوب کر رہے تھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3056   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6121  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ منافقوں نے دق کرنے کے لیے لا یعنی سوال کیے،
جن کا مقصد رسالت اور ہدایت و راہنمائی سے کوئی تعلق نہ تھا،
آپ اس پر ناراض ہوئے تو آپ کو وحی کے ذریعہ آگاہ کیا گیا کہ ان کو سوال کرنے دیں،
ہم آپ کو بتلائیں گے،
اس لیے آپ نے غصہ کے عالم میں بار بار یہ فرمایا،
میں جب تک یہاں کھڑا ہوں،
تم نے جو سوال کرنا ہے،
کر لو،
بعض پختہ کار مسلمان بھی بدفہمی کی بنا پر سوالوں میں شریک ہو گئے،
لیکن اکثر لوگ آپ کی ناراضی کی کیفیت دیکھ کر رونے لگے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی ترجمانی میں مذکورہ الفاظ کہے،
جس سے آپ کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا،
حضرت عبداللہ بن حذافہ کے نسب پر بعض لوگ طعن کرتے تھے،
انہوں نے آپ کی کیفیت کو نہ سمجھا،
اس لیے انہوں نے اپنے باپ کے بارے میں سوال کر لیا،
تاکہ معاملہ صاف ہو جائے،
جاہلیت کے دور میں عورتیں زنا کرتی تھیں اور بیٹا زانی کا ہی تصور ہوتا تھا،
اس لیے جب حضرت عبداللہ کی والدہ نے غصے کا اظہار کیا کہ تمہیں کیا معلوم،
اگر بالفرض میں نے دور جاہلیت میں زنا کا ارتکاب کیا ہوتا تو تمہارے سوال کے نتیجہ میں،
میں تمام لوگوں کے سامنے ذلیل ہو جاتی تو حضرت عبداللہ نے کہا،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وحی کی روشنی میں جو بھی فیصلہ فرماتے مجھے دل و جان سے قبول ہوتا،
حق کے سامنے سر جھکانے میں کوئی رسوائی آڑ نہ بنتی،
لیکن ظاہر ہے اسلام کے اصولوں کے مطابق شادی شدہ عورت سے زنا کے نتیجہ میں پیدا ہونے والا زانی کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا،
وہ اگر خاوند تسلیم نہ کرے تو اپنی ماں کی طرف منسوب ہوتا ہے،
وگرنہ الولد للفراش کے مطابق بیٹا اس کا ہو گا جس کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6121