صحيح مسلم
كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ -- صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب
3. باب مِنْ فَضَائِلِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
باب: سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی بزرگی کا بیان۔
حدیث نمبر: 6212
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ غِيَاثٍ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، قَالَ: " بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَائِطٍ مِنْ حَائِطِ الْمَدِينَةِ وَهُوَ مُتَّكِئٌ، يَرْكُزُ بِعُودٍ مَعَهُ بَيْنَ الْمَاءِ وَالطِّينِ، إِذَا اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ، فَقَالَ: افْتَحْ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، قَالَ: فَإِذَا أَبُو بَكْرٍ فَفَتَحْتُ لَهُ وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، قَالَ: ثُمَّ اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ آخَرُ، فَقَالَ: افْتَحْ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، قَالَ: فَذَهَبْتُ، فَإِذَا هُوَ عُمَرُ، فَفَتَحْتُ لَهُ وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، ثُمَّ اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ آخَرُ، قَالَ: فَجَلَسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: افْتَحْ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى تَكُونُ، قَالَ: فَذَهَبْتُ، فَإِذَا هُوَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، قَالَ: فَفَتَحْتُ وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، قَالَ: وَقُلْتُ: الَّذِي قَالَ: فَقَالَ: اللَّهُمَّ صَبْرًا أَوِ اللَّهُ الْمُسْتَعَانُ ".
عثمان بن غیاث نے ابو عثمان نہدی سے، انھوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کے باغوں میں سے ایک باغ میں ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے تھے آپ کے پاس جو لکڑی تھی اس (کی نوک) کو پانی اور مٹی کے درمیان ماررہے تھے کہ ایک شخص نے (باغ کا دروازہ) کھولنے کی درخواست کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دروازہ کھول دو اور اس (آنے والے) کو جنت کی خوشخبری سنادو۔" (ابو موسیٰ علیہ السلام نے) کہا: وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے، میں نے ان کے لئے دروازہ کھولا اور انھیں جنت کی بشارت دی، کہا: پھر ایک اور شخص نے دروازہ کھولنے کی درخواست کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دروازہ کھول دو اور اسے (بھی) جنت کی خوشخبری سنادو۔"میں گیا تو وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے۔میں نے ان کے لیے دروازہ کھولا اور انھیں جنت کی بشارت دی، اس کے بعد ایک اور شخص نے دروازہ کھولنے کی درخواست کی، کہا: تو آپ (سیدھے ہوکر) بیٹھ گئے، پھر فرمایا: "دروازہ کھولو اور فتنے پر جو (برپا) ہوگا، انھیں جنت کی خوشخبری دے دو۔" کہا: میں گیا تو وہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے۔کہا: میں نے دروازہ کھولا اور انھیں جنت کی خوشخبری دی اور آپ نے جو کچھ فرمایا تھا، انھیں بتایا۔انھوں نے کہا: اے اللہ صبر عطا فرمانا اور اللہ ہی ہے جس سے مدد طلب کی جاتی ہے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کے باغوں میں سے ایک باغ میں ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے تھے آپ کے پاس جو لکڑی تھی اس(کی نوک) کو پانی اور مٹی کے درمیان ماررہے تھے کہ ایک شخص نے(باغ کا دروازہ) کھولنے کی درخواست کی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"دروازہ کھول دو اور اس(آنے والے)کو جنت کی خوشخبری سنادو۔"(ابو موسیٰ ؑ نے) کہا: وہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے،میں نے ان کے لئے دروازہ کھولا اور انھیں جنت کی بشارت دی،کہا:پھر ایک اور شخص نے دروازہ کھولنے کی درخواست کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"دروازہ کھول دو اور اسے(بھی) جنت کی خوشخبری سنادو۔"میں گیا تو وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔میں نے ان کے لیے دروازہ کھولا اور انھیں جنت کی بشارت دی،اس کے بعد ایک اور شخص نے دروازہ کھولنے کی درخواست کی،کہا:تو آپ(سیدھے ہوکر) بیٹھ گئے،پھر فرمایا:"دروازہ کھولو اور فتنے پر جو(برپا) ہوگا،انھیں جنت کی خوشخبری دے دو۔" کہا:میں گیا تو وہ عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔کہا:میں نے دروازہ کھولا اور انھیں جنت کی خوشخبری دی اور آپ نے جو کچھ فرمایا تھا،انھیں بتایا۔انھوں نے کہا:اے اللہ صبر عطا فرمانا اور اللہ ہی ہے جس سے مدد طلب کی جاتی ہے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3710  
´عثمان بن عفان رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان`
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلا، آپ انصار کے ایک باغ میں داخل ہوئے اور اپنی حاجت پوری کی، پھر آپ نے مجھ سے فرمایا: ابوموسیٰ! تم دروازہ پر رہو کوئی بغیر اجازت کے اندر داخل نہ ہونے پائے، پھر ایک شخص نے آ کر دروازہ کھٹکھٹایا، تو میں نے کہا: کون ہے؟ انہوں نے کہا: ابوبکر ہوں، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ابوبکر اجازت مانگ رہے ہیں، آپ نے فرمایا: انہیں آنے دو، اور انہیں جنت کی بشارت دے دو، چنانچہ وہ اندر آئے اور میں نے انہیں جنت کی بشارت دی، پھر ایک دوسرے شخص آئے او۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3710]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سے آپﷺ کا اشارہ اس حادثہ کی طرف تھا جس سے عثمان رضی اللہ عنہ اپنی خلافت کے آخری دور میں دوچار ہوئے پھر جام شہادت نوش کیا،
نیز اس حدیث سے ان تینوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے،
اوریہ کہ ان کے درمیان خلافت میں یہی ترتیب ہو گی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3710   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6212  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
البلوي اور بلية:
مصیبت،
آزمائش۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6212