صحيح مسلم
كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ -- صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب
3. باب مِنْ فَضَائِلِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
باب: سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی بزرگی کا بیان۔
حدیث نمبر: 6214
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِسْكِينٍ الْيَمَامِيُّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ حَسَّانَ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ وَهُوَ ابْنُ بِلَالٍ ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، أَخْبَرَنِي أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ ، أَنَّهُ تَوَضَّأَ فِي بَيْتِهِ ثُمَّ خَرَجَ، فَقَالَ: " لَأَلْزَمَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَأَكُونَنَّ مَعَهُ يَوْمِي هَذَا، قَالَ: فَجَاءَ الْمَسْجِدَ، فَسَأَلَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: خَرَجَ وَجَّهَ هَاهُنَا، قَالَ: فَخَرَجْتُ عَلَى أَثَرِهِ أَسْأَلُ عَنْهُ حَتَّى دَخَلَ بِئْرَ أَرِيسٍ، قَالَ: فَجَلَسْتُ عِنْدَ الْبَابِ، وَبَابُهَا مِنْ جَرِيدٍ حَتَّى قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجَتَهُ وَتَوَضَّأَ، فَقُمْتُ إِلَيْهِ، فَإِذَا هُوَ قَدْ جَلَسَ عَلَى بِئْرِ أَرِيسٍ، وَتَوَسَّطَ قُفَّهَا، وَكَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ وَدَلَّاهُمَا فِي الْبِئْرِ، قَالَ: فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، ثُمَّ انْصَرَفْتُ، فَجَلَسْتُ عِنْدَ الْبَابِ، فَقُلْتُ لَأَكُونَنَّ بَوَّابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيَوْمَ، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ، فَدَفَعَ الْبَابَ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: أَبُو بَكْرٍ، فَقُلْتُ: عَلَى رِسْلِكَ، قَالَ: ثُمَّ ذَهَبْتُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا أَبُو بَكْرٍ يَسْتَأْذِنُ، فَقَالَ: ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، قَالَ: فَأَقْبَلْتُ حَتَّى قُلْتُ لِأَبِي بَكْرٍ: ادْخُلْ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُبَشِّرُكَ بِالْجَنَّةِ، قَالَ: فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ فَجَلَسَ عَنْ يَمِينِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُ فِي الْقُفِّ، وَدَلَّى رِجْلَيْهِ فِي الْبِئْرِ كَمَا صَنَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ، ثُمَّ رَجَعْتُ، فَجَلَسْتُ وَقَدْ تَرَكْتُ أَخِي يَتَوَضَّأُ وَيَلْحَقُنِي، فَقُلْتُ: إِنْ يُرِدِ اللَّهُ بِفُلَانٍ يُرِيدُ أَخَاهُ خَيْرًا يَأْتِ بِهِ، فَإِذَا إِنْسَانٌ يُحَرِّكُ الْبَابَ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟، فَقَالَ: عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقُلْتُ: عَلَى رِسْلِكَ، ثُمَّ جِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، وَقُلْتُ: هَذَا عُمَرُ يَسْتَأْذِنُ، فَقَالَ: ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، فَجِئْتُ عُمَرَ، فَقُلْتُ: أَذِنَ وَيُبَشِّرُكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْجَنَّةِ، قَالَ: فَدَخَلَ فَجَلَسَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقُفِّ عَنْ يَسَارِهِ، وَدَلَّى رِجْلَيْهِ فِي الْبِئْرِ، ثُمَّ رَجَعْتُ، فَجَلَسْتُ، فَقُلْتُ: إِنْ يُرِدِ اللَّهُ بِفُلَانٍ خَيْرًا يَعْنِي أَخَاهُ يَأْتِ بِهِ، فَجَاءَ إِنْسَانٌ فَحَرَّكَ الْبَابَ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، فَقُلْتُ: عَلَى رِسْلِكَ، قَالَ وَجِئْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ مَعَ بَلْوَى تُصِيبُهُ، قَالَ: فَجِئْتُ، فَقُلْتُ: ادْخُلْ وَيُبَشِّرُكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْجَنَّةِ مَعَ بَلْوَى تُصِيبُكَ، قَالَ: فَدَخَلَ فَوَجَدَ الْقُفَّ قَدْ مُلِئَ فَجَلَسَ وِجَاهَهُمْ مِنَ الشِّقِّ الْآخَرِ، قَالَ شَرِيكٌ: فَقَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ: فَأَوَّلْتُهَا قُبُورَهُمْ ".
یحییٰ بن حسان نے کہا: ہمیں سلیمان بن بلال نے شریک بن ابی نمر سے، انھوں نے سعید بن مسیب سے روایت کی، کہا: کہ مجھے سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انہوں نے اپنے گھر میں وضو کیا، پھر باہر نکلے۔ سیدنا ابوموسیٰ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ آج میں دن بھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑوں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی رہوں گا۔ کہتے ہیں کہ پھر مسجد میں آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا۔ لوگوں نے کہا کہ باہر اس طرف تشریف لے گئے ہیں۔ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے نشان پر چلا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں لوگوں سے پوچھتا جاتا تھا۔ چلتے چلتے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام اریس پر باغ میں گئے ہیں۔ میں دروازے کے قریب بیٹھ گیا جو کھجور کی ڈالیوں کا بنا ہوا تھا، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حاجت سے فارغ ہوئے اور وضو کر چکے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل دیا۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اریس کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھے ہیں اور دونوں پنڈلیاں کھول کر کنوئیں میں لٹکا دی ہیں۔ پس میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور پھر لوٹ کر دروازے کے قریب بیٹھ گیا۔ میں نے (دل میں) کہا کہ میں آج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دربان، چوکیدار رہوں گا۔ اتنے میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور دروازے کو دھکیلا۔ میں نے پوچھا کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ ابوبکر ہوں، میں نے کہا ذرا ٹھہرو۔ پھر میں گیا اور کہا کہ یا رسول اللہ! ابوبکر اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو آنے دو اور جنت کی خوشخبری دو۔ میں آیا اور سیدنا ابوبکر سے کہا کہ اندر داخل ہو، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جنت کی خوشخبری دی ہے۔ پس سیدنا ابوبکر داخل ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی داہنی طرف اسی منڈیر پر دونوں پاؤں لٹکا کر پنڈلیاں کھول کر جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے، بیٹھ گئے۔ میں لوٹ آیا اور پھر بیٹھ گیا اور میں اپنے بھائی (عامر) کو گھر میں وضو کرتے چھوڑ آیا تھا، میں نے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ کو فلاں (یعنی) میرے بھائی کی بھلائی منظور ہے تو اس کو یہاں لے آئے گا۔ اتنے میں (کیا دیکھتا ہوں کہ) کوئی دروازہ ہلانے لگا ہے۔ میں نے پوچھا کون ہے؟ جواب آیا کہ عمر بن خطاب۔ میں نے کہا ٹھہر جا۔ پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، سلام کیا اور کہا کہ سیدنا عمر بن خطاب اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ فرمایا کہ انہیں اجازت دو اور جنت کی خوشخبری بھی دو۔ پس میں گیا اور کہا کہ اندر داخل ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھے جنت کی خوشخبری دی ہے۔ پس وہ بھی داخل ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف اسی منڈیر پر بیٹھ گئے اور دونوں پاؤں کنوئیں میں لٹکا دئیے۔ پھر میں لوٹ آیا اور (دروازے پر) بیٹھ گیا۔ میں نے کہا کہ اگر اللہ کو فلاں آدمی (عامر) کی بھلائی منظور ہے تو اس کو بھی لے آئے گا۔ اتنے میں ایک اور آدمی نے دروازہ ہلایا۔ میں نے کہا کہ کون ہے؟ جواب دیا کہ عثمان بن عفان۔ میں نے کہا کہ ٹھہر جا۔ پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اجازت دو اور جنت کی خوشخبری دو مگر وہ ایک مصیبت میں مبتلا ہوں گے۔ میں آیا اور ان سے کہا کہ داخل ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھے جنت کی خوشخبری دی ہے مگر ایک بلا کے ساتھ جو تم پر آئے گی۔ پس وہ بھی داخل ہوئے اور دیکھا کہ منڈیر کا ایک حصہ بھر گیا ہے، پس وہ دوسرے کنارے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گئے۔ شریک نے کہا کہ سعید بن مسیب نے کہا کہ میں نے اس حدیث سے یہ نکالا کہ ان کی قبریں بھی اسی طرح ہوں گی۔ (ویسا ہی ہوا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو اس حجرہ میں جگہ نہ ملی، تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بقیع میں دفن ہوئے)۔
سیدنا ابوموسیٰ اشعری ؓ بیان کرتے ہیں، کہ انہوں نے اپنے گھر میں وضو کیا، پھر باہر نکلے۔ سیدنا ابوموسیٰ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ آج میں دن بھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑوں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی رہوں گا۔ کہتے ہیں کہ پھر مسجد میں آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا۔ لوگوں نے کہا کہ باہر اس طرف تشریف لے گئے ہیں۔ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے نشان پر چلا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں لوگوں سے پوچھتا جاتا تھا۔ چلتے چلتے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام اریس پر باغ میں گئے ہیں۔ میں دروازے کے قریب بیٹھ گیا جو کھجور کی ڈالیوں کا بنا ہوا تھا، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حاجت سے فارغ ہوئے اور وضو کر چکے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل دیا۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اریس کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھے ہیں اور دونوں پنڈلیاں کھول کر کنوئیں میں لٹکا دی ہیں۔ پس میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور پھر لوٹ کر دروازے کے قریب بیٹھ گیا۔ میں نے (دل میں) کہا کہ میں آج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دربان، چوکیدار رہوں گا۔ اتنے میں سیدنا ابوبکر ؓ آئے اور دروازے کو دھکیلا۔ میں نے پوچھا کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ ابوبکر ہوں، میں نے کہا ذرا ٹھہرو۔ پھر میں گیا اور کہا کہ یا رسول اللہ! ابوبکر اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو آنے دو اور جنت کی خوشخبری دو۔ میں آیا اور سیدنا ابوبکر سے کہا کہ اندر داخل ہو، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جنت کی خوشخبری دی ہے۔ پس سیدنا ابوبکر داخل ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی داہنی طرف اسی منڈیر پر دونوں پاؤں لٹکا کر پنڈلیاں کھول کر جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے، بیٹھ گئے۔ میں لوٹ آیا اور پھر بیٹھ گیا اور میں اپنے بھائی (عامر) کو گھر میں وضو کرتے چھوڑ آیا تھا، میں نے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ کو فلاں (یعنی) میرے بھائی کی بھلائی منظور ہے تو اس کو یہاں لے آئے گا۔ اتنے میں (کیا دیکھتا ہوں کہ) کوئی دروازہ ہلانے لگا ہے۔ میں نے پوچھا کون ہے؟ جواب آیا کہ عمر بن خطاب۔ میں نے کہا ٹھہر جا۔ پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، سلام کیا اور کہا کہ سیدنا عمر بن خطاب اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ فرمایا کہ انہیں اجازت دو اور جنت کی خوشخبری بھی دو۔ پس میں گیا اور کہا کہ اندر داخل ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھے جنت کی خوشخبری دی ہے۔ پس وہ بھی داخل ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف اسی منڈیر پر بیٹھ گئے اور دونوں پاؤں کنوئیں میں لٹکا دئیے۔ پھر میں لوٹ آیا اور (دروازے پر) بیٹھ گیا۔ میں نے کہا کہ اگر اللہ کو فلاں آدمی (عامر) کی بھلائی منظور ہے تو اس کو بھی لے آئے گا۔ اتنے میں ایک اور آدمی نے دروازہ ہلایا۔ میں نے کہا کہ کون ہے؟ جواب دیا کہ عثمان بن عفان۔ میں نے کہا کہ ٹھہر جا۔ پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اجازت دو اور جنت کی خوشخبری دو مگر وہ ایک مصیبت میں مبتلا ہوں گے۔ میں آیا اور ان سے کہا کہ داخل ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھے جنت کی خوشخبری دی ہے مگر ایک بلا کے ساتھ جو تم پر آئے گی۔ پس وہ بھی داخل ہوئے اور دیکھا کہ منڈیر کا ایک حصہ بھر گیا ہے، پس وہ دوسرے کنارے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گئے۔ شریک نے کہا کہ سعید بن مسیب نے کہا کہ میں نے اس حدیث سے یہ نکالا کہ ان کی قبریں بھی اسی طرح ہوں گی۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3710  
´عثمان بن عفان رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان`
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلا، آپ انصار کے ایک باغ میں داخل ہوئے اور اپنی حاجت پوری کی، پھر آپ نے مجھ سے فرمایا: ابوموسیٰ! تم دروازہ پر رہو کوئی بغیر اجازت کے اندر داخل نہ ہونے پائے، پھر ایک شخص نے آ کر دروازہ کھٹکھٹایا، تو میں نے کہا: کون ہے؟ انہوں نے کہا: ابوبکر ہوں، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ابوبکر اجازت مانگ رہے ہیں، آپ نے فرمایا: انہیں آنے دو، اور انہیں جنت کی بشارت دے دو، چنانچہ وہ اندر آئے اور میں نے انہیں جنت کی بشارت دی، پھر ایک دوسرے شخص آئے او۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3710]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سے آپﷺ کا اشارہ اس حادثہ کی طرف تھا جس سے عثمان رضی اللہ عنہ اپنی خلافت کے آخری دور میں دوچار ہوئے پھر جام شہادت نوش کیا،
نیز اس حدیث سے ان تینوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے،
اوریہ کہ ان کے درمیان خلافت میں یہی ترتیب ہو گی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3710   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6214  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
وجه ههنا:
اس طرف کا رخ کر لیا۔
(2)
توسط قفها:
منڈیر کے درمیان بیٹھ گئے۔
(3)
دلاهما:
ادلي کے معنی میں ہے،
دونوں کو لٹکا لیا۔
(4)
لاكونن بواب رسول الله:
حضرت ابو موسیٰ اشعری،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو باغ میں داخل ہوتے جا ملے تو آپ نے انہیں دروازہ پر بیٹھنے کا حکم دیا،
جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔
(5)
امر بحفظ الباب:
آپ نے اسے دروازے کی نگرانی کا حکم دیا،
اس سے آپ کا مقصد یکسوئی سے قضائے حاجت سے فراغت حاصل کرنا تھا،
جب آپ قضائے حاجت سے فارغ ہو گئے اور ابو موسیٰ آپ کے پاس آ گئے تو پھر اپنی مرضی سے واپس جا کر دربان بن بیٹھے،
اس لیے بعض روایات میں ہے۔
(6)
ولم يامرني:
آپ نے مجھے حکم نہیں دیا تھا۔
(7)
علي رسلك:
ذرا ٹھہریے،
کچھ توقف کیجئے۔
(8)
دلي رجليه في البئر:
ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں اپنی ٹانگیں کنویں میں لٹکا لیں تاکہ آپ اسی حالت میں بیٹھے رہیں،
اگر وہ اپنے پاؤں نہ لٹکاتے تو شاید آپ اس حالت میں رہنا گوارا نہ فرماتے۔
(9)
ان يرد الله بفلان خيرا:
اگر اللہ کو فلاں کی بھلائی منظور ہو گی اور ابو موسیٰ اشعری نے،
جب یہ دیکھا کہ آپ کی حاضری کی اجازت طلب کرنے والے کو جنت کی بشارت دے رہے ہیں تو ان کے دل میں یہ تمنا اور خواہش پیدا ہوئی کہ ان کا بھائی بھی آ جائے،
تاکہ اسے بھی یہ سعادت و بشارت حاصل ہو سکے۔
(10)
مع بلوي تصيبه:
ان کو مصائب سے گزرنا پڑے گا،
اس میں ان مصائب اور مشکلات کی طرف اشارہ ہے،
جن سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنی خلافت کے آخری سالوں میں گزرنا پڑا اور آخر مظلوم شہید ٹھہرے،
جیسا کہ ایک دوسری روایت میں آپ نے حضرت عثمان کے گزرنے پر فرمایا تھا:
يقتل فيها هذا يومئذ ظلما:
اس فتنہ میں یہ ظلماً شہید ہوں گے۔
(تکملہ ج 5 ص 100)
۔
(11)
جلس وجاههم:
ان کے سامنے بیٹھ گئے،
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ جگہ نہ ملی،
اس سے حضرت سعید بن المسیب نے یہ بات کہی کہ ان تینوں کی قبریں اکٹھی ہوئیں اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو الگ دفن کیا گیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6214