صحيح مسلم
كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ -- صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب
10. باب فَضَائِلِ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:
باب: سیدنا زید بن حارثہ اور سیدنا اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہما کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 6262
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقَارِيُّ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: " مَا كُنَّا نَدْعُ وَزَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ إِلَّا زَيْدَ بْنَ مُحَمَّدٍ، حَتَّى نَزَلَ فِي الْقُرْآنِ: ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ سورة الأحزاب آية 5 "، قَالَ الشَّيْخُ أَبُو أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى: أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ السَّرَّاجُ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُوسُفَ الدُّوَيْرِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ،
قتیبہ بن سعید نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں یعقوب بن عبدالرحمان القاری نے موسیٰ بن عقبہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے سالم بن عبداللہ (بن عمر) سے، انھوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ وہ کہا کرتے تھے: ہم زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو زید بن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اورکسی نام سے نہیں پکارتے تھے، یہاں تک کہ قرآن میں یہ آیت نازل ہوئی؛"ان (متنبیٰ) کو ان کے اپنے باپوں کی نسبت سے پکارو، اللہ کے نزدیک یہی زیادہ انصاف کی بات ہے۔" (اس کتاب کے ایک راوی) شیخ ابو احمد محمد بن عیسیٰ (نیشار پوری) نے کہا: ہمیں ابو عباس سراج اور محمد بن عبداللہ بن یوسف دویری نے بیان کیا، کہا: ہمیں بھی (امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے استاد) قتیبہ بن سعید نے یہ حدیث بیان کی (یعنی اس کتاب کے راوی نے یہ حدیث امام مسلم کے علاوہ قتیبہ سے ان کے دو اور شاگردوں کے حوالے سے بھی سنی۔)
حضرت عبداللہ(بن عمر) رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہاکرتے تھے،ہم زید بن حارثہ کو زیدبن محمد ہی کے نام سے پکارا کرتے تھے،حتیٰ کہ قرآن مجید کی یہ آیت اُتری،"ان کو ان کے باپوں کے نام سے پکارو،اللہ کے ہاں یہی قرین انصاف ہے۔"(احزاب آیت نمبر 5)۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6262  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت زید رضی اللہ عنہ بچے تھے کہ جاہلیت کے دور میں بنوقین کے لوگوں نے ان کو اٹھا کر عکاظ کے بازار میں بیچ ڈالا اور حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے لیے خرید لیا اور انہوں نے شادی کے بعد،
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیا،
آہستہ آہستہ،
ان کے والد کو پتہ چل گیا،
جو ان کے فراق کے غم میں روتے رہتے تھے،
وہ اپنے بھائی کعب کو ساتھ لے کر،
فدیہ کی رقم کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا،
آپ نے فرمایا،
اپنے بچے سے پوچھ لو،
اگر وہ تمہارے ساتھ جانے کے لیے تیار ہو تو مجھے کوئی انکار نہیں ہے،
لیکن اگر وہ میرے ساتھ رہنا چاہیے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ میں اسے نظر انداز کر دوں،
حضرت زید نے آپ کے پاس اپنے کو ترجیح دی تو آپ نے جاہلیت کے دستور کے مطابق،
اعلان کر دیا،
آج سے زید میرا بیٹا ہے،
میں اس کا وارث ہوں اور وہ میرا وارث ہو گا،
اس سے حضرت زید کے باپ اور چچا خوش اور مطمئن ہو کر چلے گئے اور اس کے بعد سے حضرت زید،
زید بن محمد کہلانے لگے،
حتیٰ کہ قرآن مجید نے اس رسم کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا،
تفصیل کے لیے دیکھئے (طبقات ابن سعد ج 3 ص 40 تا 43 اور اصابہ ج 1 ص 245 تا 246)
۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6262