صحيح مسلم
كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ -- صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب
11. باب فَضَائِلِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:
باب: سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 6268
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَاللَّفْظُ لِيَحْيَي، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَدَّثَنَا، وقَالَ يَحْيَي: أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ ، عَنْ مُوَرِّقٍ الْعِجْلِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ تُلُقِّيَ بِصِبْيَانِ أَهْلِ بَيْتِهِ، قَالَ: وَإِنَّهُ قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ، فَسُبِقَ بِي إِلَيْهِ فَحَمَلَنِي بَيْنَ يَدَيْهِ، ثُمَّ جِيءَ بِأَحَدِ ابْنَيْ فَاطِمَةَ، فَأَرْدَفَهُ خَلْفَهُ، قَالَ: فَأُدْخِلْنَا الْمَدِينَةَ ثَلَاثَةً عَلَى دَابَّةٍ ".
ابو معاویہ نے عاصم احول سے، انھوں نے مورق عجلی سے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن جعفررضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر سے آتے تو آپ کے گھر کے بچوں کو (باہر لے جاکر) آپ سے ملایا جاتا، ایک بار آپ سفر سے آئے، مجھے سب سے پہلے آپ کے پاس پہنچا دیاگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے سامنے بٹھا دیا، پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ایک صاحبزادے کو لایا گیا تو انھیں آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے بٹھا لیا۔کہا: تو ہم تینوں کو ایک سواری پر مدینہ کے اندر لایا گیا۔
حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر سے آتے تو آپ کے گھر کے بچوں کو (باہر لے جاکر) آپ سے ملایا جاتا،ایک بار آپ سفر سے آئے،مجھے سب سے پہلے آپ کے پاس پہنچا دیاگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے سامنے بٹھا دیا،پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ایک صاحبزادے کو لایا گیا تو انھیں آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے بٹھا لیا۔کہا:تو ہم تینوں کو ایک سواری پر مدینہ کے اندر لایا گیا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3773  
´ایک سواری پر تین آدمیوں کے سوار ہونے کا بیان۔`
عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے تشریف لاتے تو ہم لوگ آپ کے استقبال کے لیے جاتے، ایک بار میں نے اور حسن یا حسین رضی اللہ عنہما نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کیا، تو آپ نے ہم دونوں میں سے ایک کو اپنے آگے، اور دوسرے کو اپنے پیچھے سواری پر بٹھا لیا، یہاں تک کہ ہم مدینہ پہنچ گئے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3773]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بزرگوں کو چاہیے کہ بچوں سے شفقت کا سلوک کریں۔

(2)
سفر سے واپس آنے والے کا استقبال کرنا درست ہے لیکن اس میں بے جا تکلفات کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔

(3)
جانور پر ایک سے زیادہ افراد سوار ہو سکتے ہیں بشرطیکہ جانور آسانی سے بوجھ برداشت کر سکے۔
لمبے سفر میں یا کمزور جانور پر دو افراد کا سوار ہونا مناسب نہیں۔

(4)
حضرت عبداللہ بن جعفر ؓ اور حسن یا حسین ؓ بچے تھے۔
ان دونوں کا بوجھ مل کر بھی ایک بڑے آدمی کے برابر نہیں تھا، اس لیے تین افراد کا سوار ہونا جانور کے لیے مشقت کا باعث نہیں تھا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3773   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2566  
´تین آدمیوں کا ایک ہی جانور پر سوار ہونے کا بیان۔`
عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے آتے تو ہم لوگ آپ کے استقبال کے لیے جاتے، جو ہم میں سے پہلے پہنچتا اس کو آپ آگے بٹھا لیتے، چنانچہ (ایک بار) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے سامنے پایا تو مجھے اپنے آگے بٹھا لیا، پھر حسن یا حسین پہنچے تو انہیں اپنے پیچھے بٹھا لیا، پھر ہم مدینہ میں اسی طرح (سواری پر) بیٹھے ہوئے داخل ہوئے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2566]
فوائد ومسائل:

اشراف اور معزز لوگوں کا شہر سے باہر نکل کر استقبال کرنا مباح ہے۔


رسول اللہ ﷺ بچوں سے محبت کرتے تھے۔
اور انھیں عزت بھی دیتے تھے۔


جانورکی صحت اور طاقت کے لہاظ سے اس پر دو یا تین افراد کا سوار ہو جانا ظلم نہیں مباح ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2566