صحيح مسلم
كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ -- صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب
13. باب فِي فَضْلِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهَا:
باب: ام المؤمنین سیدہ ‏عائشہ رضی اللہ عنہماکی ‌‌فضیلت۔
حدیث نمبر: 6286
وحَدَّثَنَاه ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ إِلَى قَوْلِهِ: لَا وَرَبِّ إِبْرَاهِيمَ، وَلَمْ يَذْكُرْ مَا بَعْدَهُ.
عبدہ نے ہشام بن عروہ سے اسی سند کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان؛"نہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے رب کی قسم!"تک روایت کی اور بعد کا حصہ بیان نہیں کیا۔
امام صاحب یہی روایت ایک دوسرے استاد سے رب ابراہیم تک بیان کرتے ہیں اوربعد والا حصہ بیان نہیں کرتے۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6286  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کو عالم الغیب نہیں سمجھتی تھیں،
وگرنہ یہ سوال نہ کرتیں،
آپ کو کیسے پتہ چل جاتا ہے،
نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا انسان کے قول و فعل سے اس کی دلی کیفیت پر روشنی پڑتی ہے اور قرائن سے کسی کے حالات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور میاں بیوی کا تعلق و رشتہ،
محض امتی کے تعلق سے بلند و بالا ہے،
اس لیے بیوی ناز و تذلل اور خاوند کی محبت کی بناء پر ایسی بات یا ایسی حرکت کر لیتی ہے جو عام طور پر پسندیدہ خیال نہیں کی جاتی اس لیے بیوی کا خاوند سے جذبہ محبت کی بنا پر ناراضی کا اظہار قابل گرفت نہیں ہے،
کیونکہ وہ ظاہری ہوتا ہے،
دل میں محبت کا رشتہ قائم ہوتا ہے،
اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں،
میں صرف آپ کا نام ہی ترک کرتی ہوں،
دل میں رشتہ محبت برقرار ہوتا ہے اور نام بھی آپ ہی کے جد اعلیٰ کا لیتی ہوں،
جو آپ کے انتہائی قریب ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6286