صحيح مسلم
كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ -- صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب
13. باب فِي فَضْلِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهَا:
باب: ام المؤمنین سیدہ ‏عائشہ رضی اللہ عنہماکی ‌‌فضیلت۔
حدیث نمبر: 6287
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ : " أَنَّهَا كَانَتْ تَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: وَكَانَتْ تَأْتِينِي صَوَاحِبِي، فَكُنَّ يَنْقَمِعْنَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَرِّبُهُنَّ إِلَيّ ".
عبدالعزیز بن محمد نے ہشام بن عروہ سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گڑیوں سے کھیلتی تھیں، کہا: اور میری سہیلیاں میرے پاس آتی تھیں، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (آمد کی) وجہ سے (گھر کے کسی کونے میں) چھپ جاتی تھیں، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو (بلا کر) میری طرف بھیج دیتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں گڑیوں سے کھیلی تھی اور میری سہیلیاں آتیں تھیں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کی ہیبت وحیا) سے چھپ جاتیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں میرے پاس بھیجتے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1982  
´عورتوں سے اچھے سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی، تو آپ میری سہیلیوں کو میرے پاس کھیلنے کے لیے بھیج دیا کرتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1982]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
لڑکیوں کا گڑیوں کے ساتھ کھیلنا جائز ہے۔

(2)
بچوں کو جائز کھیل کھیلنے کا موقع دینا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1982   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6287  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
ينقمعن:
وہ گھر کے اندر چھپ جائیں۔
(2)
يسربهن:
آپ انہیں بھیجتے کہ جاؤ کھیلو۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوا،
بچیوں کا گڑیوں سے کھیلنا جائز ہے اور ظاہر بات ہے کہ بچیاں اپنے طور پر جو گڑیا بناتی ہیں،
وہ محض ایک بھونڈی نقالی ہوتی ہے،
جس کو تصویر کا نام نہیں دیا جا سکتا،
ہاں تصویری خاکہ ہوتا ہے،
اس لیے اس پر کارخانوں میں بڑی مہارت اور تکنیک سے تیار شدہ گڑیوں کو قیاس کرنا درست نہیں ہے،
کیونکہ وہ تو ہو بہو نقالی ہوتی ہے،
یعنی نقل مطابق اصل ہوتی ہے اور لوگ ان کو گھروں میں آرائش و زیبائش (ڈیکوریشن)
کے لیے رکھتے ہیں،
اس لیے ان گڑیوں کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6287