صحيح مسلم
كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ -- صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب
13. باب فِي فَضْلِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهَا:
باب: ام المؤمنین سیدہ ‏عائشہ رضی اللہ عنہماکی ‌‌فضیلت۔
حدیث نمبر: 6295
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " كُنْتُ أَسْمَعُ أَنَّهُ لَنْ يَمُوتَ نَبِيٌّ حَتَّى يُخَيَّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، قَالَتْ: فَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، وَأَخَذَتْهُ بُحَّةٌ يَقُولُ: مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا سورة النساء آية 69، قَالَتْ: فَظَنَنْتُهُ خُيِّرَ حِينَئِذٍ ".
محمد بن جعفر نے کہا: ہمیں شعبہ نے سعد بن ابرا ہیم سے حدیث بیان کی، انھوں نے عروہ سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، فرمایا: میں سناکرتی تھی۔کہ کوئی نبی فوت نہیں ہو تا یہاں تک کہ اس کو دنیا آخرت کے درمیان اختیار دیا جا تا ہے کہا: تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مرض الموت میں یہ فرماتے ہو ئے سنا۔اس وقت آپ کی آواز بھا ری ہو گئی تھی آپ فر ما رہے تھے: "ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ تعا لیٰ نے انعام فرمایا: "یعنی انبیاء، صدیقین شہداء اور صالحین (کے ساتھ) اور یہی بہترین رفیق ہیں۔"کہا: تو میں نے سمجھ لیا کہ اس وقت آپ کو اختیا ردے دیا گیا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتی ہیں،میں سناکرتی تھی۔کہ کو ئی نبی فوت نہیں ہو تا یہاں تک کہ اس کو دنیا آخرت کے درمیان اختیار دیا جا تا ہے کہا: تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مرض الموت میں یہ فر تے ہو ئے سنا۔اس وقت آپ کی آواز بھا ری ہو گئی تھی آپ فر رہے تھے:"ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ تعا لیٰ نے انعام فر یا:"یعنی انبیاء،صدیقین شہداء اور صالحین (کے ساتھ) اور یہی بہترین رفیق ہیں۔(النساء آیت نمبر 69)"فرماتی ہیں تو میں نے سمجھ لیا کہ اس وقت آپ کو اختیا ردے دیا گیا ہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1620  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جو نبی بھی بیمار ہوا اسے دنیا یا آخرت میں رہنے کا اختیار دیا گیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مرض میں مبتلا ہوئے جس میں آپ کا انتقال ہوا، تو آپ کو ہچکی آنے لگی، میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ رہے تھے: «مع الذين أنعم الله عليهم من النبيين والصديقين والشهداء والصالحين» ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے احسان کیا، انبیاء، صدیقین شہداء، اور صالحین میں سے تو اس وقت میں نے جان لیا کہ آپ کو اختیار دیا گیا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1620]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نبیوں علیہ السلام کو دنیا میں رہنے یا اللہ کے پاس جانے کا اختیار دیا جانا انکے مقام ومرتبہ اور شرف منزلت کے اظہار کے لئے ہے۔
لیکن انبیائے کرام رضا بالقضا کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہوتے ہیں۔
اس لئے وہ دنیا کے مقابلے میں آخرت ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔
اسی طرح ان کی وفات بھی اسی وقت پرہوتی ہے۔
جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے مقرر کر رکھا ہوتا ہے۔
اس مقررہ وقت میں تقدیم وتاخیر نہیں ہوتی۔

(2)
اس بیماری سے مراد مرض وفات ہے۔
ہر بیماری کے موقع پر اختیار دیا جانا مراد نہیں۔

(3)
اس موقع پر نبی اکرمﷺ جو آیت مبارکہ تلاوت فرمائی اس سے ارشاد مبارک (الحقني بالرفيق الاعليٰ)
 کی وضاحت ہوگئی۔

(4)
بندوں کے یہ چار گروہ انعام یافتہ ہیں۔
ان میں سے نبوت کا منصب تو محض اللہ کی مشیت کےمطابق اس کے منتخب بندوں کو تفویض ہوا اس میں بندے کی محنت اور کوشش کا کوئی دخل نہیں۔
باقی تینوں درجات (صدیق، شہید، صالح)
ایسے ہیں کہ بندہ کوشش کرے تو اللہ کی توفیق سے انھیں حاصل کرسکتا ہے۔
مومن کو کوشش کرنی چاہیے کہ ان میں سے کوئی درجہ اسے حاصل ہوجائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1620   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6295  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
اخذته بحة:
آپ کی آواز میں بھاری پن پیدا ہو گیا۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رفیق سے مراد وہ لوگ ہیں،
جو اس آیت میں بیان ہوئے ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6295