صحيح مسلم
كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ -- صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب
20. باب مِنْ فَضَائِلِ أَبِي طَلْحَةَ الأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ:
باب: سیدنا ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 6322
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ مَيْمُونٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: " مَاتَ ابْنٌ لِأَبِي طَلْحَةَ مِنْ أُمِّ سُلَيْمٍ، فَقَالَتْ لِأَهْلِهَا: لَا تُحَدِّثُوا أَبَا طَلْحَةَ بِابْنِهِ حَتَّى أَكُونَ أَنَا أُحَدِّثُهُ، قَالَ: فَجَاءَ فَقَرَّبَتْ إِلَيْهِ عَشَاءً، فَأَكَلَ وَشَرِبَ، فَقَالَ: ثُمَّ تَصَنَّعَتْ لَهُ أَحْسَنَ مَا كَانَ تَصَنَّعُ قَبْلَ ذَلِكَ، فَوَقَعَ بِهَا، فَلَمَّا رَأَتْ أَنَّهُ قَدْ شَبِعَ وَأَصَابَ مِنْهَا، قَالَتْ يَا أَبَا طَلْحَةَ: أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ قَوْمًا أَعَارُوا عَارِيَتَهُمْ أَهْلَ بَيْتٍ، فَطَلَبُوا عَارِيَتَهُمْ أَلَهُمْ أَنْ يَمْنَعُوهُمْ؟ قَالَ: لَا، قَالَتْ: فَاحْتَسِبْ ابْنَكَ، قَالَ: فَغَضِبَ، وَقَالَ: تَرَكْتِنِي حَتَّى تَلَطَّخْتُ، ثُمَّ أَخْبَرْتِنِي بِابْنِي، فَانْطَلَقَ حَتَّى أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ بِمَا كَانَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَارَكَ اللَّهُ لَكُمَا فِي غَابِرِ لَيْلَتِكُمَا، قَالَ: فَحَمَلَتْ، قَالَ: فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ وَهِيَ مَعَهُ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَتَى الْمَدِينَةَ مِنْ سَفَرٍ لَا يَطْرُقُهَا طُرُوقًا، فَدَنَوْا مِنْ الْمَدِينَةِ، فَضَرَبَهَا الْمَخَاضُ، فَاحْتُبِسَ عَلَيْهَا أَبُو طَلْحَةَ، وَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَقُولُ أَبُو طَلْحَةَ: إِنَّكَ لَتَعْلَمُ يَا رَبِّ إِنَّهُ يُعْجِبُنِي أَنْ أَخْرُجَ مَعَ رَسُولِكَ، إِذَا خَرَجَ وَأَدْخُلَ مَعَهُ إِذَا دَخَلَ، وَقَدِ احْتَبَسْتُ بِمَا تَرَى، قَالَ: تَقُولُ أُمُّ سُلَيْمٍ يَا أَبَا طَلْحَةَ: مَا أَجِدُ الَّذِي كُنْتُ أَجِدُ انْطَلِقْ، فَانْطَلَقْنَا، قَالَ: وَضَرَبَهَا الْمَخَاضُ حِينَ قَدِمَا فَوَلَدَتْ غُلَامًا، فَقَالَتْ لِي أُمِّي: يَا أَنَسُ لَا يُرْضِعُهُ أَحَدٌ حَتَّى تَغْدُوَ بِهِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أَصْبَحَ احْتَمَلْتُهُ، فَانْطَلَقْتُ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَصَادَفْتُهُ وَمَعَهُ مِيسَمٌ، فَلَمَّا رَآنِي، قَالَ: لَعَلَّ أُمَّ سُلَيْمٍ وَلَدَتْ، قُلْتُ: نَعَمْ فَوَضَعَ الْمِيسَمَ، قَالَ: وَجِئْتُ بِهِ، فَوَضَعْتُهُ فِي حَجْرِهِ، وَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَجْوَةٍ مِنْ عَجْوَةِ الْمَدِينَةِ، فَلَاكَهَا فِي فِيهِ حَتَّى ذَابَتْ، ثُمَّ قَذَفَهَا فِي فِي الصَّبِيِّ، فَجَعَلَ الصَّبِيُّ يَتَلَمَّظُهَا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: انْظُرُوا إِلَى حُبِّ الْأَنْصَارِ التَّمْرَ، قَالَ: فَمَسَحَ وَجْهَهُ وَسَمَّاهُ عَبْدَ اللَّهِ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک بیٹا جو ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پیٹ سے تھا مر گیا۔ انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا: ابوطلحہ کو خبر نہ کرنا ان کے بیٹے کی جب تک میں خود نہ کہوں۔ آخر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ آئے ام سلیم رضی اللہ عنہا شام کا کھانا سامنے لائیں۔ انہوں نے کھایا اور پیا۔ پھر ام سلیم رضی اللہ عنہا نے اچھی طرح بناؤ سنگھار کیا ان کے لیے یہاں تک کہ انہوں نے جماع کیا ان سے، جب ام سلیم رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ وہ سیر ہو گئے اور ان کے ساتھ صحبت بھی کر چکے اس وقت انہوں نے کہا: اے ابوطلحہ! اگر کچھ لوگ اپنی چیز کسی گھر والوں کو دیں پھر اپنی چیز مانگیں تو کیا گھر والے اس کو روک سکتے ہیں؟ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں روک سکتے۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا: تو میں تم کو خبر دیتی ہوں تمہارے بیٹے کے مرنے کی یہ سن کر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ غصے ہوئے اور کہنے لگے، تو نے مجھ کو خبر نہ کی یہاں تک کہ میں آلودہ ہوا (جنبی ہوا) اب مجھ کو خبر کی۔ وہ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تم کو برکت دے تمہاری گزری ہوئی رات میں۔“ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا حاملہ ہو گئیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تھے۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا بھی آپ کے ساتھ تھیں اور آپ سفر سے مدینہ میں تشریف لاتے تو رات کو مدینہ میں داخل نہ ہوتے۔ جب لوگ مدینہ کے قریب پہنچے تو ام سلیم رضی اللہ عنہا کو درد زہ شروع ہوا۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ ان کے پاس ٹھہرے رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے:اے پروردگار! تو جانتا ہے کہ مجھے تیرے رسول کے ساتھ نکلنا کتنا پسند ہے جب وہ نکلے اور جانا پسند ہے جب وہ جائیں لیکن تو جانتا ہے میں جس وجہ سے رک گیا ہوں۔ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا: اے ابوطلحہ اب میرے ویسا درد نہیں جیسے پہلے تھا تو چلو ہم چلے۔ جب میاں بی بی مدینہ میں آئے تو پھر سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کو درد زہ شروع ہوا اور وہ ایک لڑکا جنیں۔ میری ماں نے کہا: اے انس! اس کو کوئی دودھ نہ پلائے جب تک تو صبح کو اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ لے جائے۔ جب صبح ہوئی تو میں نے بچے کو اٹھایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا میں نے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اونٹوں کے داغنے کا آلہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھ کو دیکھا تو فرمایا: ”شاید ام سلیم نے یہ لڑکاجنا۔“ میں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ آلہ ہاتھ مبارک سے رکھ دیا اور میں بچےکو لےکر آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں بٹھایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عجوہ کھجور مدینہ کی منگوائی اور اپنے منہ میں چبائی۔ جب وہ گھل گئی تو بچے کے منہ میں ڈالی، بچہ اس کو چوسنے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دیکھو انصار کو کھجور سے کیسی محبت ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے منہ پر ہاتھ پھیرا اور اس کا نام عبداللہ رکھا۔