صحيح مسلم
كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ -- صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب
28. باب مِنْ فَضَائِلِ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
باب: سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 6361
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ : يَا ابْنَ أَخِي، صَلَّيْتُ سَنَتَيْنِ قَبْلَ مَبْعَثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُلْتُ: فَأَيْنَ كُنْتَ تَوَجَّهُ؟ قَالَ: حَيْثُ وَجَّهَنِيَ اللَّهُ، وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ سُلَيْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ: فَتَنَافَرَا إِلَى رَجُلٍ مِنَ الْكُهَّانِ، قَالَ: فَلَمْ يَزَلْ أَخِي أُنَيْسٌ يَمْدَحُهُ حَتَّى غَلَبَهُ، قَالَ: فَأَخَذْنَا صِرْمَتَهُ فَضَمَمْنَاهَا إِلَى صِرْمَتِنَا، وَقَالَ أَيْضًا فِي حَدِيثِهِ: قَالَ فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَطَافَ بِالْبَيْتِ وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَلْفَ الْمَقَامِ، قَالَ: فَأَتَيْتُهُ، فَإِنِّي لَأَوَّلُ النَّاسِ حَيَّاهُ بِتَحِيَّةِ الْإِسْلَامِ، قَالَ: قُلْتُ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: وَعَلَيْكَ السَّلَامُ مَنْ أَنْتَ؟ وَفِي حَدِيثِهِ أَيْضًا، فَقَالَ: مُنْذُ كَمْ أَنْتَ هَاهُنَا؟ قَالَ: قُلْتُ: مُنْذُ خَمْسَ عَشَرَةَ وَفِيهِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَتْحِفْنِي بِضِيَافَتِهِ اللَّيْلَةَ؟.
ابن عون نے حمید بن ہلال سے، انھوں نے عبداللہ بن صامت سے روایت کی، کہا: حضرت ابوزر رضی اللہ عنہ نےکہا: بھتیجے!میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے دو سال پہلے نماز پڑھی ہے، کہا: میں نے پوچھا: آپ کس طرف رخ کیاکرتے تھے؟انھوں نے کہا: جس طرح اللہ تعالیٰ میرا رخ کردیتاتھا؟پھر (ابن عون نے) سلیمان بن مغیرہ کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی اور حدیث میں یہ کہا: "ان دونوں کا آپس میں مقابلہ کاہنوں میں سے ایک آدمی کے سامنے ہوا اور میرا بھائی انیس (اشعار میں مسلسل) اس (کاہن) کی مدح کرتا رہا یہاں تک کہ اس شخص پر غالب آگیا تو ہم نے اس کا گلہ بھی لے لیا اور اسے اپنے گلے میں شامل کرلیا۔انھوں نے اپنی حدیث میں یہ بھی کہا: (ابوزر رضی اللہ عنہ نے) کہا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، بیت اللہ کاطواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعتیں ادا کیں۔کہا: تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں پہلا شخص ہوں جس نے آپ کو اسلامی طریقے سے سلام کیا۔تو کہا: میں نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ پر سلامتی ہو!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"اورتم پر بھی سلامتی ہو!تم کون ہو؟اور ان کی حدیث میں یہ بھی ہے: آپ نے پوچھا: "تم کتنے دنوں سے یہاں ہو؟"کہا: میں نے عرض کی: پندرہ دن سے، اور اس میں یہ (بھی) ہے کہ کہا: ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کی آج رات کی میزبانی بطور تحفہ مجھے عطا کردیجئے۔
حضرت ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےکہا:بھتیجے!میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے دو سال پہلے نماز پڑھی ہے،کہا:میں نے پوچھا:آپ کس طرف رخ کیاکرتے تھے؟انھوں نے کہا:جس طرح اللہ تعالیٰ میرا رخ کردیتاتھا؟پھر(ابن عون نے) سلیمان بن مغیرہ کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی اور حدیث میں یہ کہا:"ان دونوں کا آپس میں مقابلہ کاہنوں میں سے ایک آدمی کے سامنے ہوا اور میرا بھائی انیس(اشعار میں مسلسل) اس (کاہن) کی مدح کرتا رہا یہاں تک کہ اس شخص پر غالب آگیا تو ہم نے اس کا گلہ بھی لے لیا اور اسے اپنے گلے میں شامل کرلیا۔انھوں نے اپنی حدیث میں یہ بھی کہا:(ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا:تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے،بیت اللہ کاطواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعتیں ادا کیں۔کہا:تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں پہلا شخص ہوں جس نے آپ کو اسلامی طریقے سے سلام کیا۔تو کہا:میں نے کہا: "السلام عليك يا رسول الله"( صلی اللہ علیہ وسلم )!!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"وعليك السلام"!تم کون ہو؟اور ان کی حدیث میں یہ بھی ہے:آپ نے پوچھا:"تم کتنے دنوں سے یہاں ہو؟"کہا:میں نے عرض کی:پندرہ دن سے،اور اس میں یہ(بھی) ہے کہ کہا:ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:اس کی آج رات کی میزبانی بطور تحفہ مجھے عطا کردیجئے۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6361  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
لم يزل اخي يمدحه:
میرا بھائی کاہن کی تعریف میں شعر کہتا رہا،
اس کا مدمقابل شعر نہ کہہ سکا،
اس لیے کاہن نے اس کے حق میں فیصلہ دے دیا۔
(2)
تنافرا:
اس کے پاس فیصلہ لے گئے،
کاہن کا حکم تسلیم کر لیا۔
(3)
اتحفني:
مجھے عزت و شرف بخشیے،
مجھے موقعہ دیجئے۔
(4)
اتحفني مندخمس عشرة:
گزشتہ حدیث میں تیس دن رات کہا ہے،
اگر دن،
رات کو الگ الگ شمار کر لیں تو تیس ہوں گے،
اگر دن،
رات کو ایک دن قرار دیں،
تو پندرہ دن ہوں گے،
یا پندرہ دن سے زیادہ اور مہینہ سے کم دن ہوں گے،
اس لیے بعض نے پندرہ کہا اور بعض راویوں نے ماہ کے اعتبار سے تیس کہہ دیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6361