صحيح مسلم
كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ -- صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب
28. باب مِنْ فَضَائِلِ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
باب: سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 6362
وحَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَرْعَرَةَ السَّامِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، وَتَقَارَبَا فِي سِيَاقِ الْحَدِيثِ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ حَاتِمٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: " لَمَّا بَلَغَ أَبَا ذَرٍّ مَبْعَثُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ، قَالَ لِأَخِيهِ: ارْكَبْ إِلَى هَذَا الْوَادِي فَاعْلَمْ لِي عِلْمَ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ يَأْتِيهِ الْخَبَرُ مِنَ السَّمَاءِ، فَاسْمَعْ مِنْ قَوْلِهِ، ثُمَّ ائْتِنِي فَانْطَلَقَ الْآخَرُ حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ وَسَمِعَ مِنْ قَوْلِهِ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى أَبِي ذَرٍّ، فَقَالَ: رَأَيْتُهُ يَأْمُرُ بِمَكَارِمِ الْأَخْلَاقِ، وَكَلَامًا مَا هُوَ بِالشِّعْرِ، فَقَالَ: مَا شَفَيْتَنِي فِيمَا أَرَدْتُ فَتَزَوَّدَ، وَحَمَلَ شَنَّةً لَهُ فِيهَا مَاءٌ حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ، فَأَتَى الْمَسْجِدَ فَالْتَمَسَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يَعْرِفُهُ، وَكَرِهَ أَنْ يَسْأَلَ عَنْهُ حَتَّى أَدْرَكَهُ يَعْنِي اللَّيْلَ، فَاضْطَجَعَ فَرَآهُ عَلِيٌّ فَعَرَفَ أَنَّهُ غَرِيبٌ، فَلَمَّا رَآهُ تَبِعَهُ، فَلَمْ يَسْأَلْ وَاحِدٌ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أَصْبَحَ ثُمَّ احْتَمَلَ قِرْبَتَهُ، وَزَادَهُ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَظَلَّ ذَلِكَ الْيَوْمَ وَلَا يَرَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَمْسَى، فَعَادَ إِلَى مَضْجَعِهِ فَمَرَّ بِهِ عَلِيٌّ، فَقَالَ: مَا أَنَى لِلرَّجُلِ أَنْ يَعْلَمَ مَنْزِلَهُ، فَأَقَامَهُ فَذَهَبَ بِهِ مَعَهُ، وَلَا يَسْأَلُ وَاحِدٌ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ عَنْ شَيْءٍ حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ الثَّالِثِ، فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ، فَأَقَامَهُ عَلِيٌّ مَعَهُ، ثُمَّ قَالَ لَهُ: أَلَا تُحَدِّثُنِي مَا الَّذِي أَقْدَمَكَ هَذَا الْبَلَدَ، قَالَ: إِنْ أَعْطَيْتَنِي عَهْدًا وَمِيثَاقًا لَتُرْشِدَنِّي؟ فَعَلْتُ فَفَعَلَ، فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ: فَإِنَّهُ حَقٌّ وَهُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا أَصْبَحْتَ فَاتَّبِعْنِي، فَإِنِّي إِنْ رَأَيْتُ شَيْئًا أَخَافُ عَلَيْكَ قُمْتُ كَأَنِّي أُرِيقُ الْمَاءَ، فَإِنْ مَضَيْتُ فَاتَّبِعْنِي، حَتَّى تَدْخُلَ مَدْخَلِي، فَفَعَلَ فَانْطَلَقَ يَقْفُوهُ، حَتَّى دَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَخَلَ مَعَهُ، فَسَمِعَ مِنْ قَوْلِهِ، وَأَسْلَمَ مَكَانَهُ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ارْجِعْ إِلَى قَوْمِكَ فَأَخْبِرْهُمْ حَتَّى يَأْتِيَكَ أَمْرِي، فَقَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَأَصْرُخَنَّ بِهَا بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ، فَخَرَجَ حَتَّى أَتَى الْمَسْجِدَ، فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَثَارَ الْقَوْمُ، فَضَرَبُوهُ حَتَّى أَضْجَعُوهُ، فَأَتَى الْعَبَّاسُ فَأَكَبَّ عَلَيْهِ، فَقَالَ: وَيْلَكُمْ أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّهُ مِنْ غِفَارٍ، وَأَنَّ طَرِيقَ تُجَّارِكُمْ إِلَى الشَّامِ عَلَيْهِمْ، فَأَنْقَذَهُ مِنْهُمْ، ثُمَّ عَادَ مِنَ الْغَدِ بِمِثْلِهَا وَثَارُوا إِلَيْهِ فَضَرَبُوهُ، فَأَكَبَّ عَلَيْهِ الْعَبَّاسُ فَأَنْقَذَهُ ".
ابو جمرہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: کہ جب سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ میں مبعوث ہونے کی خبر پہنچی تو انہوں نے اپنے بھائی سے کہا کہ سوار ہو کر اس وادی کو جا اور اس شخص کو دیکھ کر آ جو کہتا ہے مجھے آسمان سے خبر آتی ہے، ان کی بات سن پھر میرے پاس آ۔ وہ روانہ ہوا، یہاں تک کہ مکہ میں آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سنا، پھر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کے پاس لوٹ کر گیا اور بولا کہ میں نے اس شخص کو دیکھا، وہ اچھی خصلتوں کا حکم کرتا ہے اور ایک کلام سناتا ہے جو شعر نہیں ہے۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے اس سے تسلی نہیں ہوئی۔ پھر انہوں نے خود زادراہ لیا اور پانی کی ایک مشک لی یہاں تک کہ مکہ میں آئے اور مسجدالحرام میں داخل ہوئے۔ وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھونڈا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتے نہ تھے اور انہوں نے پوچھنا بھی مناسب نہ جانا، یہاں تک کہ رات ہو گئی اور وہ لیٹ رہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کو دیکھا اور پہچانا کہ کوئی مسافر ہے پھر ان کے پیچھے گئے لیکن کسی نے دوسرے سے بات نہیں کی یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ پھر وہ اپنا توشہ اور مشک مسجد میں اٹھا لائے اور سارا دن وہاں رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شام تک نہ دیکھا۔ پھر وہ اپنے سونے کی جگہ میں چلے گئے۔ وہاں سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ گزرے اور کہا کہ ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اس شخص کو اپنا ٹھکانہ معلوم ہو۔ پھر ان کو کھڑا کیا اور ان کو ساتھ لے گئے لیکن کسی نے دوسرے سے بات نہ کی۔ پھر تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا۔ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کو اپنے ساتھ کھڑا کیا، پھر کہا کہ تم مجھ سے وہ بات کیوں نہیں کہتے جس کے لئے تم اس شہر میں آئے ہو؟ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تم مجھ سے عہد اور وعدہ کرتے ہو کہ راہ بتلاؤ گے تو میں بتاتا ہوں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وعدہ کیا تو انہوں نے بتایا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ شخص سچے ہیں اور وہ بیشک اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور تم صبح کو میرے ساتھ چلنا، اگر میں کوئی خوف کی بات دیکھوں گا جس میں تمہاری جان کا ڈر ہو تو میں کھڑا ہو جاؤں گا جیسے کوئی پانی بہاتا ہے (یعنی پیشاب کا بہانہ کروں گا) اور اگر چلا جاؤں تو تم بھی میرے پیچھے پیچھے چلے آنا۔ جہاں میں گھسوں وہاں تم بھی گھس آنا۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا اور ان کے پیچھے پیچھے چلے یہاں تک کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ پہنچے۔ پھر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنیں اور اسی جگہ مسلمان ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی قوم کے پاس جا اور ان کو دین کی خبر کر یہاں تک کہ میرا حکم تجھے پہنچے۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں تو یہ بات (یعنی دین قبول کرنے کی) مکہ والوں کو پکار کر سنا دوں گا۔ پھر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نکل کر مسجد میں آئے اور چلا کر بولے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں۔ لوگوں نے ان پر حملہ کیا اور ان کو مارتے مارتے لٹا دیا۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ وہاں آئے اور سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ پر جھکے اور لوگوں سے کہا کہ تمہای خرابی ہو، تم نہیں جانتے کہ یہ شخص (قوم) غفار کا ہے اور تمہارا سوداگری کا راستہ شام کی طرف (قوم) غفار کے ملک پر سے ہے (تو وہ تمہاری تجارت بند کر دیں گے)۔ پھر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کو ان لوگوں سے چھڑا لیا۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے دوسرے دن پھر ویسا ہی کیا اور لوگ دوڑے اور مارا اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ آئے اور انہیں چھڑا لیا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، جب سیدنا ابوذر ؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ میں مبعوث ہونے کی خبر پہنچی تو انہوں نے اپنے بھائی سے کہا کہ سوار ہو کر اس وادی کو جا اور اس شخص کو دیکھ کر آ جو کہتا ہے مجھے آسمان سے خبر آتی ہے، ان کی بات سن پھر میرے پاس آ۔ وہ روانہ ہوا، یہاں تک کہ مکہ میں آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سنا، پھر سیدنا ابوذر ؓ کے پاس لوٹ کر گیا اور بولا کہ میں نے اس شخص کو دیکھا، وہ اچھی خصلتوں کا حکم کرتا ہے اور ایک کلام سناتا ہے جو شعر نہیں ہے۔ سیدنا ابوذر ؓ نے کہا کہ مجھے اس سے تسلی نہیں ہوئی۔ پھر انہوں نے خود زادراہ لیا اور پانی کی ایک مشک لی یہاں تک کہ مکہ میں آئے اور مسجدالحرام میں داخل ہوئے۔ وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھونڈا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتے نہ تھے اور انہوں نے پوچھنا بھی مناسب نہ جانا، یہاں تک کہ رات ہو گئی اور وہ لیٹ رہے۔ سیدنا علی ؓ نے ان کو دیکھا اور پہچانا کہ کوئی مسافر ہے پھر ان کے پیچھے گئے لیکن کسی نے دوسرے سے بات نہیں کی یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ پھر وہ اپنا توشہ اور مشک مسجد میں اٹھا لائے اور سارا دن وہاں رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شام تک نہ دیکھا۔ پھر وہ اپنے سونے کی جگہ میں چلے گئے۔ وہاں سے سیدنا علی ؓ گزرے اور کہا کہ ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اس شخص کو اپنا ٹھکانہ معلوم ہو۔ پھر ان کو کھڑا کیا اور ان کو ساتھ لے گئے لیکن کسی نے دوسرے سے بات نہ کی۔ پھر تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا۔ اور سیدنا علی ؓ نے ان کو اپنے ساتھ کھڑا کیا، پھر کہا کہ تم مجھ سے وہ بات کیوں نہیں کہتے جس کے لئے تم اس شہر میں آئے ہو؟ سیدنا ابوذر ؓ نے کہا کہ اگر تم مجھ سے عہد اور وعدہ کرتے ہو کہ راہ بتلاؤ گے تو میں بتاتا ہوں۔ سیدنا علی ؓ نے وعدہ کیا تو انہوں نے بتایا۔ سیدنا علی ؓ نے کہا کہ وہ شخص سچے ہیں اور وہ بیشک اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور تم صبح کو میرے ساتھ چلنا، اگر میں کوئی خوف کی بات دیکھوں گا جس میں تمہاری جان کا ڈر ہو تو میں کھڑا ہو جاؤں گا جیسے کوئی پانی بہاتا ہے (یعنی پیشاب کا بہانہ کروں گا) اور اگر چلا جاؤں تو تم بھی میرے پیچھے پیچھے چلے آنا۔ جہاں میں گھسوں وہاں تم بھی گھس آنا۔ سیدنا ابوذر ؓ نے ایسا ہی کیا اور ان کے پیچھے پیچھے چلے یہاں تک کہ سیدنا علی ؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور سیدنا ابوذر ؓ بھی ان کے ساتھ پہنچے۔ پھر سیدنا ابوذر ؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنیں اور اسی جگہ مسلمان ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی قوم کے پاس جا اور ان کو دین کی خبر کر یہاں تک کہ میرا حکم تجھے پہنچے۔ سیدنا ابوذر ؓ نے کہا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں تو یہ بات (یعنی دین قبول کرنے کی)مکہ والوں کو پکار کر سنا دوں گا۔ پھر سیدنا ابوذر ؓ نکل کر مسجد میں آئے اور چلا کر بولے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں۔ لوگوں نے ان پر حملہ کیا اور ان کو مارتے مارتے لٹا دیا۔ سیدنا عباس ؓ وہاں آئے اور سیدنا ابوذر ؓ پر جھکے اور لوگوں سے کہا کہ تمہای خرابی ہو، تم نہیں جانتے کہ یہ شخص (قوم) غفار کا ہے اور تمہارا سوداگری کا راستہ شام کی طرف (قوم) غفار کے ملک پر سے ہے (تو وہ تمہاری تجارت بند کر دیں گے)۔ پھر سیدنا ابوذر ؓ کو ان لوگوں سے چھڑا لیا۔ سیدنا ابوذر ؓ نے دوسرے دن پھر ویسا ہی کیا اور لوگ دوڑے اور مارا اور سیدنا عباس ؓ آئے اور انہیں چھڑا لیا۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6362  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
ماشفيتني فيمااردت:
میری مطلوبہ معلومات تسلی بخش طور پر نہیں لائے ہو۔
(2)
حمل شنة:
اپنے ساتھ پانی کا مشکیزہ لیا اور زادراہ بھی لیا،
لیکن یہ چیزیں راستہ میں ہی ختم ہو گئیں،
اس لیے مکہ میں صرف زمزم کے پانی پر گزارہ کرتے رہے۔
(3)
مااني للرجل ان يعلم منزله:
کہ اس آدمی کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ وہ اپنی منزل کو پا لیتا،
یعنی مکہ میں اس کو ابھی اقامت کے لیے جگہ نہیں ملی،
یا میں نے اسے کل جس جگہ ٹھہرایا تھا،
اس نے اس کو نہیں پہچانا کہ آج بھی وہ چلا جاتا۔
(4)
كاني اريق الماء گویا کہ میں پانی بہا رہا ہوں،
یعنی پیشاب کر رہا ہوں اور بعض روایتوں میں ہے۔
(5)
فاني اصلح نعلي:
گویا کہ میں اپنی جوتی درست کر رہا ہوں۔
فوائد ومسائل:
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کا واقعہ حضرت ابوذر سے عبداللہ بن صامت اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نقل کرتے ہیں اور دونوں کی تفصیلات میں کچھ اختلافات ہیں،
اصل واقعہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ابوذر اپنی اقامت گاہ سے زادراہ اور پانی کا مشکیزہ لے کر چلے ہیں،
جو مکہ پہنچنے تک ختم ہو گیا اور انہوں نے ایک آدمی کو ناتواں اور ضعیف سمجھ کر،
آپ کے بارے میں سوال کیا تو اس نے خلاف توقع لوگوں کو ان کے خلاف بھڑکا دیا،
پھر انہوں نے کسی سے نہیں پوچھا،
اس طرح کئی دن گزر گئے اور وہ زمزم کے پانی پر گزارہ کرتے رہے،
آخر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خود ہی ان سے آنے کا مقصد پوچھا تو انہوں نے پہلے واقعہ سے ڈرتے ہوئے کہا،
اگر میری راہنمائی کرنے کا پختہ وعدہ کرو تو میں تمہیں اپنی آمد کا مقصد بتاتا ہوں،
اس طرح وہ اسلام لے آئے اور رات کے وقت وہ طواف کے لیے نکلے تو ان عورتوں والا واقعہ پیش آ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر بھی طواف کے لیے آئے تو انہوں نے ان کو پہچان لیا،
اس لیے آپ کو اسلامی طریقہ کے مطابق سلام کیا اور آپ کو رسول اللہ کہہ کر پکارا،
اور آپ نے ابوذر سے ان کے احوال پوچھے اور اس کے بعد ابوذر کچھ دن مکہ میں رہے اور حضرت عباس کو بھی ان سے واقفیت ہو گئی،
پھر وہ رخصت ہونے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے انہیں مکہ کے قریبی علاقہ سے واپس اپنی قوم میں جا کر اسلام کی تبلیغ کا مشورہ دیا اور یہ بھی بتا دیا،
میں بھی جلد ہجرت کر کے مدینہ منورہ آنے والا ہوں تو واپسی کے وقت حضرت ابوذر نے اپنے اسلام لانے کا اعلان کیا اور انہیں دوبارہ مشرکین مکہ نے مارا،
جس سے حضرت عباس نے انہیں خلاصی دلوائی اور وہ واپس اپنے بھائی اور ماں کے پاس چلے گئے،
ان دونوں کو اسلام کی تبلیغ کی،
جس سے وہ مسلمان ہو گئے تو ان کو لے کر اپنی قوم کے پاس چلے گئے،
ان کو اسلام کی تبلیغ کی،
آدھی قوم مسلمان ہو گئی اور باقی آدھی قوم آپ کی ہجرت کے بعد مسلمان ہو گئی اور یہ لوگ مکمل طور پر جنگ بدر کے بعد مسلمان ہوئے ہیں،
کیونکہ بعض تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان رحضۃ جنگ بدر میں مشرکین مکہ کے ساتھ شامل تھا،
(اصابۃ ج 1 ص 301،
تکملہ ج 5 ص 219)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6362