صحيح مسلم
كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ -- صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب
33. باب مِنْ فَضَائِلِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلاَمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
باب: عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 6383
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَاللَّفْظُ لِقُتَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُسْهِرٍ ، عَنْ خَرَشَةَ بْنِ الْحُرِّ ، قَالَ: " كُنْتُ جَالِسًا فِي حَلَقَةٍ فِي مَسْجِدِ الْمَدِينَةِ، قَالَ: وَفِيهَا شَيْخٌ حَسَنُ الْهَيْئَةِ وَهُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ، قَالَ: فَجَعَلَ يُحَدِّثُهُمْ حَدِيثًا حَسَنًا، قَالَ: فَلَمَّا قَامَ، قَالَ الْقَوْمُ مَنْ سَرَّهُ: أَنْ يَنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَلْيَنْظُرْ إِلَى هَذَا، قَالَ: فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَأَتْبَعَنَّهُ فَلَأَعْلَمَنَّ مَكَانَ بَيْتِهِ، قَالَ: فَتَبِعْتُهُ فَانْطَلَقَ حَتَّى كَادَ أَنْ يَخْرُجَ مِنْ الْمَدِينَةِ، ثُمَّ دَخَلَ مَنْزِلَهُ، قَالَ: فَاسْتَأْذَنْتُ عَلَيْهِ، فَأَذِنَ لِي، فَقَالَ: مَا حَاجَتُكَ يَا ابْنَ أَخِي؟ قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: سَمِعْتُ الْقَوْمَ يَقُولُونَ لَكَ لَمَّا قُمْتَ مَنْ سَرَّهُ، أَنْ يَنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى هَذَا، فَأَعْجَبَنِي أَنْ أَكُونَ مَعَكَ، قَالَ: اللَّهُ أَعْلَمُ بِأَهْلِ الْجَنَّةِ، وَسَأُحَدِّثُكَ مِمَّ، قَالُوا ذَاكَ: إِنِّي بَيْنَمَا أَنَا نَائِمٌ، إِذْ أَتَانِي رَجُلٌ، فَقَالَ لِي: قُمْ فَأَخَذَ بِيَدِي، فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ، قَالَ: فَإِذَا أَنَا بِجَوَادَّ، عَنْ شِمَالِي، قَالَ: فَأَخَذْتُ لِآخُذَ فِيهَا، فَقَالَ لِي: لَا تَأْخُذْ فِيهَا، فَإِنَّهَا طُرُقُ أَصْحَابِ الشِّمَالِ، قَالَ: فَإِذَا جَوَادُّ مَنْهَجٌ عَلَى يَمِينِي، فَقَالَ لِي: خُذْ هَاهُنَا فَأَتَى بِي جَبَلًا، فَقَالَ لِيَ: اصْعَدْ، قَالَ: فَجَعَلْتُ إِذَا أَرَدْتُ أَنْ أَصْعَدَ خَرَرْتُ عَلَى اسْتِي، قَالَ: حَتَّى فَعَلْتُ ذَلِكَ مِرَارًا، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ بِي حَتَّى أَتَى بِي عَمُودًا رَأْسُهُ فِي السَّمَاءِ، وَأَسْفَلُهُ فِي الْأَرْضِ فِي أَعْلَاهُ حَلْقَةٌ، فَقَالَ لِيَ: اصْعَدْ فَوْقَ هَذَا، قَالَ: قُلْتُ: كَيْفَ أَصْعَدُ هَذَا وَرَأْسُهُ فِي السَّمَاءِ؟ قَالَ: فَأَخَذَ بِيَدِي، فَزَجَلَ بِي، قَالَ: فَإِذَا أَنَا مُتَعَلِّقٌ بِالْحَلْقَةِ، قَالَ: ثُمَّ ضَرَبَ الْعَمُودَ فَخَرَّ، قَالَ: وَبَقِيتُ مُتَعَلِّقًا بِالْحَلْقَةِ حَتَّى أَصْبَحْتُ، قَالَ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَصَصْتُهَا عَلَيْهِ، فَقَالَ: أَمَّا الطُّرُقُ الَّتِي رَأَيْتَ عَنْ يَسَارِكَ، فَهِيَ طُرُقُ أَصْحَابِ الشِّمَالِ، قَالَ: وَأَمَّا الطُّرُقُ الَّتِي رَأَيْتَ عَنْ يَمِينِكَ، فَهِيَ طُرُقُ أَصْحَابِ الْيَمِينِ، وَأَمَّا الْجَبَلُ فَهُوَ مَنْزِلُ الشُّهَدَاءِ وَلَنْ تَنَالَهُ، وَأَمَّا الْعَمُودُ فَهُوَ عَمُودُ الْإِسْلَامِ، وَأَمَّا الْعُرْوَةُ فَهِيَ عُرْوَةُ الْإِسْلَامِ، وَلَنْ تَزَالَ مُتَمَسِّكًا بِهَا حَتَّى تَمُوتَ ".
خرشہ بن حر سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں مدینہ منورہ کی مسجد کے اندر ایک حلقے میں بیٹھا ہوا تھا، کہا: اس میں خوبصورت ہیت والے ایک حسین وجمیل بزرگ بھی موجود تھے۔وہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ تھے، کہا: انھوں نے ان لوگوں کو خوبصورت احادیث سنانی شروع کردیں، کہا: جب وہ کھڑے ہوئے تو لوگوں نے کہا کہ جس کو ایک جنتی کا دیکھنا اچھا معلوم ہو، وہ اس کو دیکھے۔ میں نے (اپنے دل میں) کہا کہ اللہ کی قسم میں ان کے ساتھ جاؤں گا اور ان کا گھر دیکھوں گا۔ پھر میں ان کے پیچھے ہوا، وہ چلے، یہاں تک کہ قریب ہوا کہ وہ شہر سے باہر نکل جائیں، پھر وہ اپنے مکان میں گئے تو میں نے بھی اندر آنے کی اجازت چاہی۔ انہوں نے اجازت دی، پھر پوچھا کہ اے میرے بھتیجے! تجھے کیا کام ہے؟ میں نے کہا کہ جب آپ کھڑے ہوئے تو میں نے لوگوں کو سنا کہ جس کو ایک جنتی کا دیکھنا اچھا لگے، وہ ان کو دیکھے تو مجھے آپ کے ساتھ رہنا اچھا معلوم ہوا۔ انہوں نے کہا کہ جنت والوں کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور میں تجھ سے لوگوں کے یہ کہنے کی وجہ بیان کرتا ہوں۔ میں ایک دفعہ سو رہا تھا کہ خواب میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ کھڑا ہو۔ پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑا، میں اس کے ساتھ چلا، مجھے بائیں طرف کچھ راہیں ملیں تو میں نے ان میں جانا چاہا تو وہ بولا کہ ان میں مت جا، یہ بائیں طرف والوں (یعنی کافروں) کی راہیں ہیں۔ پھر دائیں طرف کی راہیں ملیں تو وہ شخص بولا کہ ان راہوں میں جا۔ پس وہ مجھے ایک پہاڑ کے پاس لے آیا اور بولا کہ اس پر چڑھ۔ میں نے اوپر چڑھنا چاہا تو پیٹھ کے بل گرا۔ کئی بار میں نے چڑھنے کا قصد کیا لیکن ہر بار گرا۔ پھر وہ مجھے لے چلا، یہاں تک کہ ایک ستون ملا جس کی چوٹی آسمان میں تھی اور تہہ زمین میں، اس کے اوپر ایک حلقہ تھا۔ مجھ سے اس شخص نے کہا کہ اس ستون کے اوپر چڑھ جا۔ میں نے کہا کہ میں اس پر کیسے چڑھوں کہ اس کا سرا تو آسمان میں ہے۔ آخر اس شخص نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اچھال دیا اور میں نے دیکھا کہ میں اس حلقہ کو پکڑے ہوئے لٹک رہا ہوں۔ پھر اس شخص نے ستون کو مارا تو وہ گر پڑا اور میں صبح تک اسی حلقہ میں لٹکتا رہا (اس وجہ سے کہ اترنے کا کوئی ذریعہ نہیں رہا)۔ کہتے ہیں پس میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر اپنا خواب بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو راہیں تو نے بائیں طرف دیکھیں، وہ بائیں طرف والوں کی راہیں ہیں اور جو راہیں دائیں طرف دیکھیں، وہ دائیں طرف والوں کی راہیں ہیں۔ اور وہ پہاڑ شہیدوں کا مقام ہے، تو وہاں تک نہ پہنچ سکے گا اور ستون، اسلام کا ستون ہے اور حلقہ، اسلام کا حلقہ ہے اور تو مرتے دم تک اسلام پر قائم رہے گا۔ (اور جب اسلام پر خاتمہ ہو تو جنت کا یقین ہے، اس وجہ سے لوگ مجھے جنتی کہتے ہیں)
خرشہ بن حر رحمۃ ا للہ علیہ بیان کرتے ہیں، میں مدینہ منورہ کی مسجد کے اندر ایک حلقے میں بیٹھا ہوا تھا،کہا:اس میں خوبصورت ہیت والے ایک حسین وجمیل بزرگ بھی موجود تھے۔وہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے،کہا:انھوں نے ان لوگوں کو خوبصورت احادیث سنانی شروع کردیں،کہا: جب وہ کھڑے ہوئے تو لوگوں نے کہا کہ جس کو ایک جنتی کا دیکھنا اچھا معلوم ہو، وہ اس کو دیکھے۔ میں نے (اپنے دل میں) کہا کہ اللہ کی قسم میں ان کے ساتھ جاؤں گا اور ان کا گھر دیکھوں گا۔ پھر میں ان کے پیچھے ہوا، وہ چلے، یہاں تک کہ قریب ہوا کہ وہ شہر سے باہر نکل جائیں، پھر وہ اپنے مکان میں گئے تو میں نے بھی اندر آنے کی اجازت چاہی۔ انہوں نے اجازت دی، پھر پوچھا کہ اے میرے بھتیجے! تجھے کیا کام ہے؟ میں نے کہا کہ جب آپ کھڑے ہوئے تو میں نے لوگوں کو سنا کہ جس کو ایک جنتی کا دیکھنا اچھا لگے، وہ ان کو دیکھے تو مجھے آپ کے ساتھ رہنا اچھا معلوم ہوا۔ انہوں نے کہا کہ جنت والوں کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور میں تجھ سے لوگوں کے یہ کہنے کی وجہ بیان کرتا ہوں۔ میں ایک دفعہ سو رہا تھا کہ خواب میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ کھڑا ہو۔ پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑا، میں اس کے ساتھ چلا، مجھے بائیں طرف کچھ راہیں ملیں تو میں نے ان میں جانا چاہا تو وہ بولا کہ ان میں مت جا، یہ بائیں طرف والوں (یعنی کافروں) کی راہیں ہیں۔ پھر دائیں طرف کی راہیں ملیں تو وہ شخص بولا کہ ان راہوں میں جا۔ پس وہ مجھے ایک پہاڑ کے پاس لے آیا اور بولا کہ اس پر چڑھ۔ میں نے اوپر چڑھنا چاہا تو پیٹھ کے بل گرا۔ کئی بار میں نے چڑھنے کا قصد کیا لیکن ہر بار گرا۔ پھر وہ مجھے لے چلا، یہاں تک کہ ایک ستون ملا جس کی چوٹی آسمان میں تھی اور تہہ زمین میں، اس کے اوپر ایک حلقہ تھا۔ مجھ سے اس شخص نے کہا کہ اس ستون کے اوپر چڑھ جا۔ میں نے کہا کہ میں اس پر کیسے چڑھوں کہ اس کا سرا تو آسمان میں ہے۔ آخر اس شخص نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اچھال دیا اور میں نے دیکھا کہ میں اس حلقہ کو پکڑے ہوئے لٹک رہا ہوں۔ پھر اس شخص نے ستون کو مارا تو وہ گر پڑا اور میں صبح تک اسی حلقہ میں لٹکتا رہا (اس وجہ سے کہ اترنے کا کوئی ذریعہ نہیں رہا)۔ کہتے ہیں پس میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر اپنا خواب بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو راہیں تو نے بائیں طرف دیکھیں، وہ بائیں طرف والوں کی راہیں ہیں اور جو راہیں دائیں طرف دیکھیں، وہ دائیں طرف والوں کی راہیں ہیں۔ اور وہ پہاڑ شہیدوں کا مقام ہے، تو وہاں تک نہ پہنچ سکے گا اوررہا عمود تو وہ اسلام کاستون ہے،رہاکنڈا تو وہ اسلام کا کنڈا ہے اورتو اسے ہمیشہ مضبوطی سے پکڑے رکھے گا،حتیٰ کہ فوت ہوجائے۔"
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3920  
´خواب کی تعبیر کا بیان۔`
خرشہ بن حرر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں مدینہ آیا تو مسجد نبوی میں چند بوڑھوں کے پاس آ کر بیٹھ گیا، اتنے میں ایک بوڑھا اپنی لاٹھی ٹیکتے ہوئے آیا، تو لوگوں نے کہا: جسے کوئی جنتی آدمی دیکھنا پسند ہو وہ اس شخص کو دیکھ لے، پھر اس نے ایک ستون کے پیچھے جا کر دو رکعت نماز ادا کی، تو میں ان کے پاس گیا، اور ان سے عرض کیا کہ آپ کی نسبت کچھ لوگوں کا ایسا ایسا کہنا ہے؟ انہوں نے کہا: الحمدللہ! جنت اللہ کی ملکیت ہے وہ جسے چاہے اس میں داخل فرمائے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک خواب دیکھا تھا، میں نے دیکھا، گویا ایک شخص میرے پاس آیا،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب تعبير الرؤيا/حدیث: 3920]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرنے سے پہلے یہودی مذہب پر تھےاور ان کے بہت بڑے عالم تھے۔

(2)
دین پر مرتے وقت دم تک قائم رہنا نجات کا باعث ہے۔

(3)
شہادت کے منصب کو پھسلواں پہاڑ سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ جس طرح پھسلن والے پہاڑ پر چڑھنا مشکل ہوتا ہے اسی طرح جہاد کرکے شہادت حاصل کرنا، مشکل ہے لیکن وہ پہاڑ کی طرح بلند اور عظیم مقام ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3920   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6383  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
جواد:
جادة کی جمع ہے،
دال پر شد ہے،
شاہراہ عام،
وہ کھلا راہ جس پر لوگ چلتے ہوں۔
(2)
جواد،
منهج:
شاہراہ عام جو مستقیم اور سیدھی ہو۔
کیونکہ نهج سیدھے راستہ کو کہتے ہیں،
کھلا،
واضح اور سیدھا راستہ۔
(3)
زجل بي:
مجھے پھینک دیا،
یعنی اوپر چڑھا دیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6383