صحيح مسلم
كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ -- صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب
36. باب مِنْ فَضَائِلِ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ وَأَهْلِ بَدْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ :
باب: حاطب بن ابی بلتعہ اور اہل بدر کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 6401
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، وَاللَّفْظُ لِعَمْرٍو، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرُونَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي رَافِعٍ ، وَهُوَ كَاتِبُ عَلِيٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ يَقُولُ: " بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَالزُّبَيْرَ، وَالْمِقْدَادَ، فَقَالَ: ائْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ، فَإِنَّ بِهَا ظَعِينَةً، مَعَهَا كِتَابٌ فَخُذُوهُ مِنْهَا، فَانْطَلَقْنَا تَعَادَى بِنَا خَيْلُنَا، فَإِذَا نَحْنُ بِالْمَرْأَةِ، فَقُلْنَا: أَخْرِجِي الْكِتَابَ، فَقَالَتْ: مَا مَعِي كِتَابٌ، فَقُلْنَا: لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَتُلْقِيَنَّ الثِّيَابَ، فَأَخْرَجَتْهُ مِنْ عِقَاصِهَا، فَأَتَيْنَا بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا فِيهِ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى نَاسٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ يُخْبِرُهُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا حَاطِبُ: مَا هَذَا؟ قَالَ: لَا تَعْجَلْ عَلَيَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ امْرَأً مُلْصَقًا فِي قُرَيْشٍ، قَالَ سُفْيَانُ: كَانَ حَلِيفًا لَهُمْ، وَلَمْ يَكُنْ مِنْ أَنْفُسِهَا أَكَانَ مِمَّنْ كَانَ مَعَكَ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ لَهُمْ قَرَابَاتٌ يَحْمُونَ بِهَا أَهْلِيهِمْ، فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِي ذَلِكَ مِنَ النَّسَبِ فِيهِمْ، أَنْ أَتَّخِذَ فِيهِمْ يَدًا يَحْمُونَ بِهَا قَرَابَتِي، وَلَمْ أَفْعَلْهُ كُفْرًا، وَلَا ارْتِدَادًا عَنْ دِينِي، وَلَا رِضًا بِالْكُفْرِ بَعْدَ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقَ، فَقَالَ عُمَرُ: دَعْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَضْرِبْ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ، فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ سورة الممتحنة آية 1، وَلَيْسَ فِي حَدِيثِ أَبِي بَكْرٍ، وَزُهَيْرٍ ذِكْرُ الْآيَةِ، وَجَعَلَهَا إِسْحَاقُ، فِي رِوَايَتِهِ مِنْ تِلَاوَةِ سُفْيَانَ.
ابو بکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم اور ابن ابی عمر نے ہمیں حدیث بیان کی، الفاظ عمرو کے ہیں۔اسحاق نے کہا: ہمیں خبر دی، دوسروں نے کہا: ہمیں سفیان بن عیینہ نے عمرو (بن دینار) سے حدیث بیان کی، انھوں نے حسن بن محمد سے روایت کی، انھوں نے کہا: مجھے عبیداللہ بن ابی رافع نے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کاتب تھے، خبر دی، انھوں نے کہا: میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: کہ ہمیں یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ اور سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ کو روضہ خاخ مقام پر بھیجا اور فرمایا کہ جاؤ اور وہاں تمہیں ایک عورت اونٹ پر سوار ملے گی، اس کے پاس ایک خط ہے وہ اس سے لے کر آؤ۔ ہم گھوڑے دوڑاتے ہوئے چلے اچانک وہ عورت ہمیں ملی تو ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال۔ وہ بولی کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے۔ ہم نے کہا کہ خط نکال یا اپنے کپڑے اتار۔ پس اس نے وہ خط اپنے جوڑے سے نکالا۔ ہم وہ خط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے، اس میں لکھا تھا حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مکہ کے بعض مشرکین کے نام (اور اس میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض باتوں کا ذکر تھا (ایک روایت میں ہے کہ حاطب نے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیاری اور فوج کی آمادگی اور مکہ کی روانگی سے کافروں کو مطلع کیا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے حاطب! تو نے یہ کیا کیا؟ وہ بولے کہ یا رسول اللہ! آپ جلدی نہ فرمائیے۔میں قریش سے ملا ہوا ایک شخص تھا یعنی ان کا حلیف تھا اور قریش میں سے نہ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہاجرین جو ہیں ان کے رشتہ دار قریش میں بہت ہیں جن کی وجہ سے ان کے گھربار کا بچاؤ ہوتا ہے تو میں نے یہ چاہا کہ میرا ناتا تو قریش سے نہیں ہے، میں بھی ان کا کوئی کام ایسا کر دوں جس سے میرے اہل و عیال والوں کا بچاؤ کریں گے اور میں نے یہ کام اس وجہ سے نہیں کیا کہ میں کافر ہو گیا ہوں یا مرتد ہو گیا ہوں اور نہ مسلمان ہونے کے بعد کفر سے خوش ہو کر کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حاطب نے سچ کہا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہ کہ یا رسول اللہ! آپ چھوڑئیے میں اس منافق کی گردن ماروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو بدر کی لڑائی میں شریک تھا اور تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے بدر والوں کو جھانکا اور فرمایا کہ تم جو اعمال چاہو کرو (بشرطیکہ کفر تک نہ پہنچیں) میں نے تمہیں بخش دیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ۔ (سورۃ: الممتحنہ: 1)۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ ہمیں یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، سیدنا زبیر ؓ اور سیدنا مقداد ؓ کو روضہ خاخ مقام پر بھیجا اور فرمایا کہ جاؤ اور وہاں تمہیں ایک عورت اونٹ پر سوار ملے گی، اس کے پاس ایک خط ہے وہ اس سے لے کر آؤ۔ ہم گھوڑے دوڑاتے ہوئے چلے اچانک وہ عورت ہمیں ملی تو ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال۔ وہ بولی کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے۔ ہم نے کہا کہ خط نکال یا اپنے کپڑے اتار۔ پس اس نے وہ خط اپنے جوڑے سے نکالا۔ ہم وہ خط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے، اس میں لکھا تھا حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مکہ کے بعض مشرکین کے نام (اور اس میں)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض باتوں کا ذکر تھا۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے حاطب! تو نے یہ کیا کیا؟ وہ بولے کہ یا رسول اللہ! آپ جلدی نہ فرمائیے۔میں قریش سے ملا ہوا ایک شخص تھا یعنی ان کا حلیف تھا اور قریش میں سے نہ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہاجرین جو ہیں ان کے رشتہ دار قریش میں بہت ہیں جن کی وجہ سے ان کے گھربار کا بچاؤ ہوتا ہے تو میں نے یہ چاہا کہ میرا ناتا تو قریش سے نہیں ہے، میں بھی ان کا کوئی کام ایسا کر دوں جس سے میرے اہل و عیال والوں کا بچاؤ کریں گے اور میں نے یہ کام اس وجہ سے نہیں کیا کہ میں کافر ہو گیا ہوں یا مرتد ہو گیا ہوں اور نہ مسلمان ہونے کے بعد کفر سے خوش ہو کر کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حاطب نے سچ کہا۔ سیدنا عمر ؓ نے کہ کہ یا رسول اللہ! آپ چھوڑئیے میں اس منافق کی گردن ماروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا:"وہ بدر میں شریک ہوچکا ہے،تمھیں کیامعلوم،شاید کہ اللہ اہل بدر کے حالات سے آگاہ ہے اور فرمایاہے،جو چاہوکرو میں تمھیں معاف کرچکا ہوں۔"اس پر اللہ تعالیٰ نےیہ آیت اُتاری:"اے ایمان والو!میرے دشمن اور اپنے دشمن کو دوست نہ بناؤ،"سورۃ ممتحنہ آیت نمبر6۔ابوبکر اورزہیر کی حدیث میں آیت کاذکر نہیں ہے اور اسحاق نے اپنی روایت میں،اس کو سفیان کی تلاوت قراردیاہے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3305  
´سورۃ الممتحنہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبیداللہ بن ابورافع کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی الله عنہ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے زبیر اور مقداد بن اسود کو بھیجا، فرمایا: جاؤ، روضہ خاخ ۱؎ پر پہنچو وہاں ایک ھودج سوار عورت ہے، اس کے پاس ایک خط ہے، وہ خط جا کر اس سے لے لو، اور میرے پاس لے آؤ، چنانچہ ہم نکل پڑے، ہمارے گھوڑے ہمیں لیے لیے دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی کوشش کر رہے تھے، ہم روضہ پہنچے، ہمیں ہودج سوار عورت مل گئی، ہم نے اس سے کہا: خط نکال، اس نے کہا: ہمارے پاس کوئی خط نہیں ہے، ہم نے کہا: خط نکالتی ہے یا پھر اپنے کپڑے اتارتی ہے؟ (ی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3305]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
خاخ ایک جگہ کا نام ہے اس کے اور مدینہ کے درمیان 12میل کا فاصلہ ہے۔

2؎:
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو،
میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ،
تم انہیں دوستی کا پیغام بھیجتے ہو (الممتحنة: 1)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3305   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2650  
´جاسوس اگر مسلمان ہو اور کافروں کے لیے جاسوسی کرے تو اس کے حکم کا بیان۔`
عبیداللہ بن ابی رافع جو علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے منشی تھے، کہتے ہیں: میں نے علی رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، زبیر اور مقداد تینوں کو بھیجا اور کہا: تم لوگ جاؤ یہاں تک کہ روضہ خاخ ۱؎ پہنچو، وہاں ایک عورت کجاوہ میں بیٹھی ہوئی اونٹ پر سوار ملے گی اس کے پاس ایک خط ہے تم اس سے اسے چھین لینا، تو ہم اپنے گھوڑے دوڑاتے ہوئے چلے یہاں تک کہ روضہ خاخ پہنچے اور دفعتاً اس عورت کو جا لیا، ہم نے اس سے کہا: خط لاؤ، اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں ہے، میں نے کہا: خط نکالو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2650]
فوائد ومسائل:

رسول اللہ ﷺ کا غیب کی خبریں دینا وحی کی بنا پر ہوتا تھا۔


مجاہد کو تلوار کا دھنی ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر تدابیر سے بھی کام لینا چاہیے۔
جیسے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دھمکی سے کام نکالا۔


صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی امانت قابل قدر ہے کہ انہوں نے اپنے طور پر خط پڑھنے کی کوشش نہیں کی۔


کافر کا کوئی اکرام و احترام نہیں ہوتا، بالخصوص جب وہ مسلمانوں کے خلاف کام کرتا ہو۔


بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین تمام تر رفعت شان کے باوجود بشری خطائوں سے مبرا نہ تھے اور ان سے ان کے عادل ہونے پر بھی کوئی اثر نہیں پڑا۔
جیسے کہ حضرت حاطب رضی اللہ تعالیٰ عنہ

جب کوئی شخص کسی ناجائز کام کا مرتکب ہوا ہو وہ اس کے جواز میں اپنے فہم (تاویل) کا سہارا لے تو اس کا عذر ایک حد تک قبول کیا جائے گا۔
بشرط یہ کہ اس کے فہم (تاویل) کی گنجائش نکلتی ہو۔


کوئی مسلمان ہوتے ہوئے اپنے مسلمانوں کے راز افشاں کرے۔
اور ان کی جاسوسی کرے۔
تو یہ حرام کام ہے۔
اور انتہائی کبیرہ گناہ مگر اس کو قتل نہیں کیا جائے گا۔
لیکن تعزیر ضرور ہوگی۔
امام شافعی فرماتے ہیں۔
کہ اگر کوئی مسلمان باوقار ہو اور مسلمانوں کو ضرر پہنچانے کی تہمت سے مہتم نہ ہو تو اس کو معاف بھی کیا جاسکتا ہے۔


کسی واضح عمل کی بنا پر اگر کوئی شخص کسی کو کفر یانفاق کی طرف منسوب کردے تو اس پرکوئی سزا نہیں۔
جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تھا۔


اہل بدر کو دیگر صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے مقابلے میں ایک ممتاز مرتبہ حاصل تھا۔
حضرت حاطبرضی اللہ تعالیٰ عنہ انہی میں سے تھے۔
اور نفاق کی تہمت سے بری تھے۔

10۔
جو جی چاہے کرو۔
کہ یہ معنی ہرگز نہیں کہ وہ شرعی پابندیوں سے آذاد قرار دیئے گئے۔
بلکہ یہ ان کی مدح ثناء تھی۔
اور اللہ تعالیٰ کی طرفسے ضمانت تھی۔
کہ یہ لوگ اللہ کی خاص حفاظت میں ہیں۔
ان میں سے کوئی ایسا کام مصادر نہ ہوگا۔
جوشریعت کے صریح منافی ہو۔
واللہ اعلم۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2650   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6401  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
ظعينة:
هودج میں سفر کرنے والی عورت،
کیونکہ ظعن چلنے کو کہتے ہیں۔
(2)
معها كتاب فخذوا منها:
اس کے پاس خط ہے،
وہ اس سے لے لو،
جس سے معلوم ہوتا ہے،
جاسوسی پر مشتمل خط و کتابت کو قبضہ میں لیا جا سکتا ہے اور کسی مصلحت اور حکمت کے تحت مشتبہ خطوط کو پڑھا جا سکتا ہے۔
(3)
لتلقين الثياب:
لتخرجن کی مناسبت سے تلقین کی یا اس کو گرایا نہیں گیا،
اس سے ثابت ہوا ضرورت اور مجبوری کے تحت مجرم یا جاسوس کے کپڑے اتارے جا سکتے ہیں،
خواہ وہ عورت ہی کیوں نہ ہو۔
(4)
عقاص:
کی جمع ہے،
گیسو،
گندھے ہوئے بال۔
(5)
ملصق:
جو کسی خاندان میں،
ان سے دوستی کے سبب داخل سمجھا جائے،
حضرت حاطب رضی اللہ عنہ یمنی شاعر اور شاہسوار تھے،
جو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے حلیف تھے،
ان کی ہجرت کے بعد ان کے بیٹے اور بھائی مکہ میں رہ گئے تھے۔
(6)
لعل الله اطلع:
بعض روایات میں ان الله ہے،
لعل:
اللہ اور رسول کے کلام میں یقین کا معنی دیتا ہے،
محض امید پر دلالت نہیں کرتا ہے۔
(7)
اعملواماشئتم:
جو چاہو کرو،
یعنی تم سے اچھے کام ہی صادر ہوں گے،
اگر کبھی بشری تقاضا سے غلط کام ہو گیا تو تمہیں توبہ کی توفیق مل جائے گی،
اس لیے قیامت کو اس پر مواخذہ نہیں ہو گا،
لیکن دنیا میں اگر کوئی قابل حد یا تعزیر حرکت سرزد ہوئی تو اس پر مؤاخذہ ہو گا،
جیسا کہ آپ نے بدری صحابی مسطح ابن اثاثہ کو حد لگائی تھی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6401