صحيح مسلم
كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ -- صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب
42. باب مِنْ فَضَائِلِ سَلْمَانَ وَصُهَيْبٍ وَبِلاَلٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمْ:
باب: سلمان فارسی اور بلال اور صہیب رضوان اللہ عنہم کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 6412
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ ، عَنْ عَائِذِ بْنِ عَمْرٍو : " أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ أَتَى عَلَى سَلْمَانَ وَصُهَيْبٍ، وَبِلَالٍ فِي نَفَرٍ، فَقَالُوا: وَاللَّهِ مَا أَخَذَتْ سُيُوفُ اللَّهِ مِنْ عُنُقِ عَدُوِّ اللَّهِ مَأْخَذَهَا، قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَتَقُولُونَ هَذَا لِشَيْخِ قُرَيْشٍ وَسَيِّدِهِمْ؟ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ: لَعَلَّكَ أَغْضَبْتَهُمْ لَئِنْ كُنْتَ أَغْضَبْتَهُمْ لَقَدْ أَغْضَبْتَ رَبَّكَ، فَأَتَاهُمْ أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ: يَا إِخْوَتَاهْ أَغْضَبْتُكُمْ؟ قَالُوا: لَا، يَغْفِرُ اللَّهُ لَكَ يَا أَخِي ".
معاویہ بن قرہ نے عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ چند اور لوگوں کی موجودگی میں حضرت سلیمان، حضرت صہیب اور حضرت بلال رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پاس سے گزرے تو انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! اللہ کی تلواریں اللہ کے دشمن کی گردن میں اپنی جگہ تک نہیں پہنچیں۔کہا: اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم لوگ قریش کے شیخ اور سردار کے متعلق یہ کہتے ہو۔پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو یہ بات بتا ئی تو آپ نے فرمایا: "ابو بکر رضی اللہ عنہ! شاید تم نے ان کو ناراض کر دیا ہے۔اگر تم نے ان کو ناراض کر دیا ہے تو اپنے رب کو ناراض کر دیا ہے۔حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور کہا: میرے بھائیو! کیا میں نے تم کو ناراض کردیا؟ انھوں نے کہا: نہیں بھا ئی! اللہ آپ کی مغفرت فر ما ئے۔
حضرت عائذ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں: کہ ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ چند اور لوگوں کی موجودگی میں حضرت سلیمان،حضرت صہیب اور حضرت بلال رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پاس سے گزرے تو انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! اللہ کی تلواریں اللہ کے دشمن کی گردن میں اپنی جگہ تک نہیں پہنچیں۔کہا: اس پر ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فر یا:تم لوگ قریش کے شیخ اور سردار کے متعلق یہ کہتے ہو۔پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو یہ بات بتا ئی تو آپ نے فر یا:"ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ! شاید تم نے ان کو ناراض کر دیا ہے۔اگر تم نے ان کو ناراض کر دیا ہے تو اپنے رب کو ناراض کر دیا ہے۔حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے پاس آئے اور کہا: میرے بھائیو! کیا میں نے تم کو ناراض کردیا؟ انھوں نے کہا: نہیں بھا ئی! اللہ آپ کی مغفرت فر ئے۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6412  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
یہ واقعہ صلح حدیبیہ کے دوران کا ہے،
جبکہ ابو سفیان ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے چونکہ وہ اپنی قوم کے سردار اور لیڈر تھے،
اس لیے ابوبکر نے کہا،
تمہیں یہ انداز اختیار نہیں کرنا چاہیے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر سے فرمایا،
یہ بات انہوں نے دینی غیرت و حمیت کے تحت کہی ہے،
اس لیے تمہیں ان کی حوصلہ شکنی نہیں کرنی چاہیے تھی،
جس سے معلوم ہوا ہے،
اہل دین کو کم حیثیت لوگوں کی دل شکنی نہیں کرنی چاہیے،
بلکہ ان سے نرمی اور اکرام سے پیش آنا چاہیے،
دعائیہ کلمات سے پہلے،
لا،
اس انداز سے نہیں کہنا چاہیے کہ وہ بددعا بن جائے،
اس لیے ابوبکر،
اس انداز سے منع فرماتے تھے،
وہ فرماتے تھے،
عافاك الله،
رحمك الله کہو،
ان سے پہلے،
لا،
استعمال نہ کرو۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6412