صحيح البخاري
كِتَاب الْجَنَائِزِ -- کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
40. بَابُ مَنْ جَلَسَ عِنْدَ الْمُصِيبَةِ يُعْرَفُ فِيهِ الْحُزْنُ:
باب: جو شخص مصیبت کے وقت ایسا بیٹھے کہ وہ غمگین دکھائی دے۔
حدیث نمبر: 1300
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ:" قَنَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهْرًا حِينَ قُتِلَ الْقُرَّاءُ، فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَزِنَ حُزْنًا قَطُّ أَشَدَّ مِنْهُ".
ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا ‘ ان سے محمد بن فضیل نے بیان کیا ‘ ان سے عاصم احول نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ جب قاریوں کی ایک جماعت شہید کر دی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مہینہ تک قنوت پڑھتے رہے۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں سے زیادہ کبھی غمگین رہے ہوں۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1071  
´رکوع کے بعد دعائے قنوت پڑھنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینے تک رکوع کے بعد دعائے قنوت پڑھی، آپ اس میں رعل، ذکوان اور عصیہ نامی قبائل ۱؎ پر جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تھی، بد دعا کرتے رہے۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1071]
1071۔ اردو حاشیہ:
➊ ان کے ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دھوکا کر کے کچھ مبلغین حاصل کیے جو سب قرآن کے قاری تھے اور انہیں اپنے علاقے میں لے جاکر ان قبائل سے قتل کرا دیا۔ ایک دوسرے حادثے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دس صحابہ شہید کر دیے گئے۔ یہ واقعات جنگ احد کے بعد قریب ہی پیش آئے تھے۔ جنگ احد میں بھی مسلمانوں کا خاصا نقصان ہوا تھا۔ ان مسلسل جانی نقصانات سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم غمگین ہوئے تو آپ نے قنوت نازلہ کا اہتمام فرمایا؎ (نازلہ عربی میں مصیبت کو کہتے ہیں اور قنوت وہ دعا جو کھڑے ہو کر کی جائے۔) آپ مختلف نمازوں میں آخری رکعت میں رکوع کے بعد ہاتھ اٹھا کر بلند آواز سے دعا مانگتے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم بھی شریک دعا ہوتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعض مشرکین مکہ، دھوکا دینے والے قبائل اور قاتلین قراء کے نام لے کر بددعا فرماتے تھے۔ ایک مہینے تک یہ عمل جاری رہا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ مخصوص حالات میں کسی شخص یا قبیلے کا نام لے کر بددعا کرنا جائز ہے، تاہم اس سے پہلے جنگ احد کے بعد آپ نے قنوت نازلہ کا اہتمام فرمایا جس میں آپ کا سرزخمی ہو گیا تھا اور ایک رباعی دانت ٹوٹ گیا تھا، اس موقع پر آپ کو ان کی بابت قنوت سے روک دیا گیا۔ یہ دو الگ الگ واقعات اور الگ الگ قنوت ہیں۔ مختلف قبائل کا نام لے کر جو قنوت کی، وہ آیت: «لَيْسَ لَكَ مِنَ الأمْرِ شَيْءٌ» [آل عمران 128: 3] کے نزول کے بعد کا واقعہ ہے، اس لیے حسب ضرورت کسی شخص یا قبیلے کا نام لے کر قنوت نازلہ کرناجائز ہے۔ لیکن کبھی کبھار، نہ کہ ہمیشہ۔ امام حنیفہ رحمہ اللہ کسی معین شخص یا قبیلے کا نام لے کر اس کے حق میں یا اس کے خلاف دعا کرنے سے منع کرتے ہیں۔ یہ حدیث ان کے موقف کی تائید نہیں کرتی۔ امام شافعی رحمہ اللہ صبح کی نماز میں ہمیشہ قنوت کے قائل ہیں مگر یہ صحابہ میں مختلف فیہ مسئلہ رہا ہے، لہٰذا ایک آدھی روایت کی بنا پر اس پر دوام مناسب نہیں ہے، جب کہ اس کے خلاف بھی روایات موجود ہیں۔ جمہور اہل علم دوام کو غلط سمجھتے ہیں۔ صرف کسی اہم موقع پر جب کوئی خصوصی مصیبت نازل ہو، رکوع کے بعد فجر یا کسی اور نماز میں قنوت کرلی جائے۔ دلائل کو جمع کرنے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ جب دلائل متعارض معلوم ہوں تو درمیانی راہ نکالنی چاہیے نہ کہ کسی ایک جانب کو لازم کر لیا جائے۔ باقی رہی قنوت وتر تو اس کا ذکر وتر کی بحث میں مناسب ہے۔ ان شاء اللہ وہیں آئے گا۔
➋ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نماز میں غیر قرآن الفاظ کے ساتھ دعا کرنا ممنوع قرار دیتے ہیں۔ حدیث ان کے موقف کی تردید کرتی ہے۔
➌ کفار پر لعنت بھیجنا اور ان کے خلاف بددعا کرنا جائز ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1071   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1072  
´نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھنے کا بیان۔`
ابن سیرین سے روایت ہے کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر میں قنوت پڑھی ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! (پڑھی ہے) پھر ان سے پوچھا گیا، رکوع سے پہلے یا رکوع کے بعد؟ رکوع کے بعد ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1072]
1072۔ اردو حاشیہ: یہی وہ قنوت ہے جسے امام شافعی رحمہ اللہ نے صبح کی قنوت سمجھا ہے جب کہ جمہور اہل علم اسے عارضی قنوت نازلہ سمجھتے ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1072   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1080  
´قنوت (قنوت نازلہ) چھوڑ دینے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ تک دعائے قنوت پڑھی، آپ عرب کے ایک قبیلے پر بد دعا کر رہے تھے، پھر آپ نے اسے ترک کر دیا۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1080]
1080۔ اردو حاشیہ: ایک نہیں بلکہ کئی قبیلوں کے خلاف بددعا کرتے تھے۔ (دیکھیے، روایت: 1078)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1080   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1184  
´رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد دعائے قنوت پڑھنے کا بیان۔`
محمد (محمد بن سیرین) کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے دعائے قنوت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کے بعد دعائے قنوت پڑھی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1184]
اردو حاشہ:
فائدہ:
یہاں حدیث میں اختصار ہے۔
اصل میں یہ وہی حدیث ہے جس میں یہ درج ہے کہ نبی کریمﷺ نے ایک مہینہ مسلسل پانچوں فرض نمازوں میں رکوع کے بعد قنوت نازلہ پڑھی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1184   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 241  
´نماز کی صفت کا بیان`
«. . . وعن أنس رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قنت شهرا بعد الركوع يدعو على أحياء من العرب ثم تركه. متفق عليه. ولأحمد والدارقطني نحوه من وجه آخر وزاد: "وأما في الصبح فلم يزل يقنت حتى فارق الدنيا". . . .»
. . . سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا مہینہ رکوع کے بعد دعائے قنوت پڑھی، پھر اسے چھوڑ دیا۔ (بخاری و مسلم) احمد اور دارقطنی وغیرہ نے ایک اور طریق سے اسے روایت کیا ہے، اس میں اتنا اضافہ ہے کہ صبح کی نماز میں دعائے قنوت تا دم زیست ہمیشہ پڑھتے رہے۔ . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب صفة الصلاة: 241]

لغوی تشریح:
«قَنَتَ» قنوت سے ماخوذ ہے۔ اس کے متعدد معانی ہیں۔ یہاں مراد ہے قیام کی حالت میں دوران نماز میں دعا کرنا۔ یہ دعا بعد از رکوع ہے۔
«عَليٰ أَحْيَاءٍ» «عَليٰ»، اس جگہ نقصان و ضرر کے لیے استعمال ہوا ہے، یعنی جب کسی کے لیے بدعا کی جائے تو اس موقع پر «دَعَا عَلَيْهِ» بولا جاتا ہے، یعنی فلاں نے فلاں کے لیے بدعا کی۔ اور «أَحْيَاءٍ» جمع ہے «حَيّ» کی جس کے معنی قبیلہ کے ہیں۔ اور یہ قبائل (عہد شکن) رعل، ذکوان، عصیہ اور بنولحان تھے۔ ان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بددعا کی، اس لیے کہ آپ نے ان کی درخواست پر پروردگار کے احکام پہنچانے اور تبلیغ اسلام کے لیے ان قبائل نجد کی طرف اپنے ستر قاری اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کو بھیجا تھا۔ جب یہ قافلہ مبلغین، بئر معونہ پر پہنچا۔۔۔ اور یہ کنواں یا چشمہ بنی عامر کے علاقہ اور حرہ بنی سلیم کے درمیان واقع تھا بلکہ یہ حرہ بنی سلیم کے زیادہ قریب تھا۔۔۔ تو بنوسلیم کے قبائل کے جھرمٹ میں سے عامر بن طفیل ان کی طرف نکلا۔۔۔ اور یہ قبائل رعل، ذکوان اور عصیہ تھے۔ (جہاں یہ قراء حضرات ٹھہرے ہوئے تھے) وہیں ان قبائل کے لوگوں نے انہیں گھیرے میں لے لیا۔ ان قاریوں نے بھی اپنی تلواریں نکال لیں اور مد مقابل دشمنوں سے خوب لڑے حتی کہ سب کے سب جام شہادت نوش کر گئے۔ صرف سیدنا کعب بن زید رضی اللہ عنہ زندہ بچے۔ کفار نے انہیں اس حالت میں چھوڑا تھا کہ زندگی کی رمق ابھی ان کے اندر باقی تھی مگر انہوں نے اپنے گمان کے مطابق انہیں مار دیا تھا۔ اللہ نے انہیں زندگی عطا کی اور بالآخر غزوہ خندق میں جام شہادت نوش فرمایا۔ یہ المناک اور دردناک واقعہ غزوہ احد کے چار ماہ بعد 4 ہجری ماہ صفر میں پیش آیا۔ بنولحیان کے حق میں بددعا کی وجہ یہ تھی کہ عضل و قارہ کے قبائل نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے ایسے (عالم) آدمیوں کا مطالبہ کیا تھا جو انہیں اسلام کی دعوت دے سکیں اور انہیں احکام شریعت کی تعلیم دے سکیں، چنانچہ آپ نے دس عظیم حضرات ان کی جانب بھیجے۔ جب یہ حضرات رجیع تک پہنچے۔۔۔۔۔۔ یہ جگہ رابغ اور جدہ کے درمیان واقع ہے۔۔۔۔ تو ان قبائل کے لوگوں نے ان دس آدمیوں کے ساتھ دھوکا کیا اور بنولحیان کو بھی اشارہ کیا (شہہ دی۔) یہ ہذیل کے قبائل میں سے ایک قبیلہ تھا۔ یہ سب لوگ ان کی طرف نکل کھڑے ہوئے اور ان کو گھیرے میں لے لیا، چنانچہ ان لوگوں نے دو صحابہ کرام سیدنا خبیب بن عدی اور سیدنا زید بن دثنہ رضی اللہ عنہما کو گرفتار کر لیا اور ان کے علاوہ باقی تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو انہوں نے تہ تیغ کر دیا۔ اور یہ واقعہ بھی ماہ صفر میں پیش آیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دونوں المناک واقعات کی اطلاع ایک ہی شب میں ملی۔ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہایت ہی افسردہ اور غمگین ہوئے کہ پورا ایک مہینہ ان کے لیے بددعا کرتے رہے۔ اور پھر بددعا کرنا ترک کر دیا۔ اس قسم کی دعائے قنوت کو قنوت نازلہ کہا جاتا ہے۔ فرضی نماز میں اس کے علاوہ کوئی قنوت نہیں ہے۔ یہ دعائے قنوت بڑے بڑے المناک اور دردناک واقعات کے ساتھ مخصوص ہے ورنہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم دعائے قنوت نہیں پڑھتے تھے، الا یہ کہ مسلمانوں کے لیے دعا فرمائیں یا کفار میں سے بدعہد، عہد شکن قسم کے لوگوں کے لیے بد دعا کریں۔ رہا نماز فجر میں مسند أحمد اور دارقطنی کے حوالے سے قنوت کے پڑھنے کا التزام و مواظبت کا اضافہ تو یہ قابل استدلال نہیں کیونکہ یہ اضافہ سنداً ضعیف ہے، نیز قنوت نازلہ کسی نماز کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اسے تمام نمازوں میں پڑھا جا سکتا ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے کئی مسائل پر روشنی پڑتی ہے۔ نماز فجر میں آپ سے دعائے قنوت نازلہ ثابت ہے۔ عہد شکنی اور بدعہدی کی بنا پر مقتول صحابہ کی وجہ سے مہینہ بھر آپ بددعا کرتے رہے۔ ظاہر ہے یہ فرض نماز ہی تھی۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ رکوع کے بعد دعا فرماتے رہے۔
➋ یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام دین تبلیغ ہے۔ مبلغین کی جماعت تیار رہنی چاہئے۔ جہاں تبلیغ کی ضرورت ہو وہاں جماعتی شکل میں تبلیغ کے لیے جانا چاہیے۔
➌ نظم جماعت کی طرف بھی اس سے اشارہ ملتا ہے اور اطاعت امیر بھی اس سے ظاہر ہے۔
➍ ایک بات یہ بھی واضح ہوتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ذاتی علم غیب نہیں رکھتے تھے۔ اگر آپ کو علم غیب ہوتا تو اپنے تیار مبلغین کو قتل کے لیے کیوں بھیجتے۔ نعوذ باللہ! جان بوجھ کر تو آپ نے ایسا ہرگز نہیں کیا۔ جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطلاع موصول نہیں ہوئی اس وقت تک آپ کو اپنے بھیجے ہوئے مبلغین کی صورت حال کی کچھ خبر نہیں تھی۔
➎ احناف اسی حدیث کی روشنی میں بوقت ضرورت قنوت نازلہ کے قائل ہیں جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ نماز فجر میں ہمیشہ دعائے قنوت پڑھنے کے قائل ہیں اور اسے مسنون قرار دیتے ہیں۔
➏ قنوت نازلہ کا طریقہ یہ ہے کہ امام رکوع کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعائے قنوت نازلہ پڑھے اور مقتدی آمین کہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 241   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1300  
1300. حضرت انس ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:جب قراء شہید ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے ایک ماہ تک قنوت فرمائی۔ میں نےرسول اللہ ﷺ کو کبھی اس سے زیادہ غمناک نہیں دیکھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1300]
حدیث حاشیہ:
یہ شہدائے کرام قاریوں کی ایک معزز ترین جماعت تھی جو سترنفوس پر مشتمل تھی۔
حضرت مولانا شیخ الحدیث عبیداللہ صاحب مبارکپوری ؒ کے لفظوں میں اس جماعت کا تعارف یہ ہے:
وكانوا من أوزاع الناس ينزلون الصفة يتفقهون العلم ويتعلمون القرآن، وكانوا ردءاً للمسلمين إذا نزلت بهم نازلة وكانوا حقاً عمار المسجد وليوث الملاحم، بعثهم رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إلى أهل نجد من بني عامر ليدعوهم على الإسلام ويقرؤا عليهم القرآن، فلما نزلوا بئر معونة قصدهم عامر بن الطفيل في أحياء من بني سليم، وهو رعل وذكوان وعصية فقاتلوهم. (فأصيبوا)
أي فقتلوا جميعاً. قيل:
ولم ينج منهم إلا كعب بن زيد الأنصاري، فإنه تخلص وبه رمق وظنوا أنه مات، فعاش حتى استشهد يوم الخندق وأسر عمرو بن أمية الصغرى، وكان ذلك في السنة الرابعة من الهجرة أي في صفر على رأس أربعة أشهر من أحد، فحزن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - حزناً شديداً، قال أنس:
ما رأيت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وجد على أحد ما وجد عليهم. (مرعاة ج: 2ص222)
یعنی بعض اصحاب صفہ میں سے یہ بہترین اللہ والے بزرگ تھے جو قرآن پاک اور دینی علوم میں مہارت حاصل کرتے تھے اور یہ وہ لوگ تھے کہ مصائب کے وقت ان کی دعائیں اہل اسلام کے لیے پشت پناہی کا کام دیتی تھی۔
یہ مسجد نبوی کے حقیقی طور پر آباد کرنے والے اہل حق لوگ تھے جو جنگ وجہاد کے مواقع پر بہادر شیروں کی طرح میدان میں کام کیا کرتے تھے۔
انہیں رسول اللہ ﷺ نے اہل نجد کے قبیلہ بنو عامر میں تبلیغ اسلام اور تعلیم قرآن مجید کے لیے روانہ فرمایا تھا۔
جب یہ بئر معونہ کے قریب پہنچے تو عامر بن طفیل نامی ایک غدار نے رعل اور ذکوان نامی قبائل کے بہت سے لوگوں کو ہمراہ لے کر ان پر حملہ کردیا اور یہ سب وہاں شہید ہوگئے۔
جن کا رسول کریم ﷺ کو اس قدر صدمہ ہوا کہ آپ ﷺ نے پورے ایک ماہ تک قبائل رعل وذکوان کے لیے قنوت نازلہ پڑھی۔
یہ 4ھ کا واقعہ ہے۔
کہا گیا ہے کہ ان میں سے صرف ایک بزرگ کعب بن زید انصاری ؓ کسی طرح بچ نکلے۔
جسے ظالموں نے مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا تھا۔
یہ بعد تک زندہ رہے۔
یہاں تک کہ جنگ خندق میں شہید ہوئے۔
رضي اللہ عنهم آمین
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1300   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1300  
1300. حضرت انس ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:جب قراء شہید ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے ایک ماہ تک قنوت فرمائی۔ میں نےرسول اللہ ﷺ کو کبھی اس سے زیادہ غمناک نہیں دیکھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1300]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ مصیبت کے وقت اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہیے، نہ تو غم و پریشانی کے وقت اپنے چہرے کو نوچنا شروع کر دے جو شریعت کی خلاف ورزی پر مبنی ہے اور نہ اس کے متعلق قساوتِ قلبی ہی کا مظاہرہ کرے کہ پریشانی کے اثرات ہی چہرے پر نمایاں نہ ہوں۔
ایسے حالات میں پریشان انسان کو چاہیے کہ پروقار ہو کر اور اطمینان سے بیٹھے اور چہرے پر غمگینی اور پریشانی کے اثرات ہوں تاکہ پتہ چلے کہ واقعی یہ انسان کسی بڑی مصیبت سے دوچار ہے۔
(فتح الباري: 213/3) (2)
واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل نجد کی طرف ستر (70)
قراء بھیجے جو بڑے بہادر اور فاضل تھے، انہیں دھوکے سے شہید کر دیا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے مہینہ بھر ان قبائل کے لیے بددعا فرمائی جنہوں نے قراء حضرات کو قتل کیا تھا۔
اس وقت رسول الله ﷺ اس کیفیت سے دوچار ہوئے جس کا حدیث میں ذکر ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1300