صحيح مسلم
كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ -- صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب
53. باب بَيَانِ مَعْنٰي قَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «عَلٰي رَأْسِ مِائَةِ سَنَةٍ لَّا يَبْقٰي نَفْسٌ مَّنْفُوسَةٌ مِّمَّنْ هُوَ مَوْجُودٌ الْآنَ »
باب: ”جو لوگ اس وقت زندہ ہیں، سو سال بعد ان میں سے کوئی زندہ نہیں ہو گا“ کا مطلب۔
حدیث نمبر: 6479
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ: حَدَّثَنَا، وقَالَ عَبْدٌ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ سُلَيْمَانَ ، أن عبد الله بن عمر ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ صَلَاةَ الْعِشَاءِ فِي آخِرِ حَيَاتِهِ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ، فَقَالَ: أَرَأَيْتَكُمْ لَيْلَتَكُمْ هَذِهِ، فَإِنَّ عَلَى رَأْسِ مِائَةِ سَنَةٍ مِنْهَا لَا يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَوَهَلَ النَّاسُ فِي مَقَالَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ فِيمَا يَتَحَدَّثُونَ مِنْ هَذِهِ الْأَحَادِيثِ عَنْ مِائَةِ سَنَةٍ، وَإِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ الْيَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ "، يُرِيدُ بِذَلِكَ أَنْ يَنْخَرِمَ ذَلِكَ الْقَرْنُ.
معمر نے زہری سے روایت کی، انھوں نے کہا: مجھے سالم بن عبداللہ اور ابو بکر بن سلیمان نے بتا یا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبا رکہ کے آخری حصے میں ایک را ت ہمیں عشاء کی نما ز پڑھا ئی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلا م پھیرا تو کھڑے ہو گئے تو فرما یا: " کیا تم لوگوں نے اپنی اس را ت کو دیکھا ہے؟ (اسے یا د رکھو) بلا شبہ اس رات سے سو سال کے بعد جو لو گ (اس را ت میں) روئے زمین پر مو جودہیں ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں ہو گا۔"حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: (بعض) لو گ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فر ما ن کے متعلق غلط فہمیوں میں مبتلا ہوئے ہیں جو اس میں سو سال کے حوالے سے مختلف باتیں کر رہے ہیں (کہ سو سال بعد زندگی کا خاتمہ ہو جا ئے گا۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما یا تھا۔"آج جو لوگ روئےزمین پر مو جو د ہیں ان میں سے کوئی باقی نہیں ہو گا۔"آپ کا مقصود یہ تھا کہ اس قرن (اس دور میں رہنے والے لوگوں) کا خاتمہ ہو جائے گا۔
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبا رکہ کے آخری حصے میں ایک را ت ہمیں عشاء کی ن ز پڑھا ئی،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلا م پھیرا تو کھڑے ہو گئے تو فر یا:" کیا تم لوگوں نے اپنی اس را ت کو دیکھا ہے؟(اسے یا د رکھو)بلا شبہ اس رات سے سو سال کے بعد جو لو گ (اس را ت میں) روئے زمین پر مو جودہیں ان میں سے کو ئی بھی باقی نہیں ہو گا۔"حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: (بعض) لو گ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فر ن کے متعلق غلط فہمیوں میں مبتلا ہوئے ہیں جو اس میں سو سال کے حوالے سے مختلف باتیں کر رہے ہیں (کہ سو سال بعد زندگی کا خاتمہ ہو جا ئے گا۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فر یا تھا۔"آج جو لوگ روئےزمین پر مو جو د ہیں ان میں سے کو ئی باقی نہیں ہو گا۔"آپ کا مقصود یہ تھا کہ اس قرن کا خاتمہ ہو جائے گا۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4348  
´قیامت آنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخری عمر میں ایک رات ہمیں عشاء پڑھائی، پھر جب سلام پھیرا تو کھڑے ہوئے اور فرمایا: تمہیں پتا ہے، آج کی رات کے سو سال بعد اس وقت جتنے آدمی اس روئے زمین پر ہیں ان میں سے کوئی بھی (زندہ) باقی نہیں رہے گا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سو سال کے بعد کے متعلق احادیث بیان کرنے میں غلط فہمی کا شکار ہو گئے کہ سو برس بعد قیامت آ جائے گی، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ آج روئے زمین پر جتنے لوگ زندہ ہیں سو سال کے بعد ان میں سے کوئ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الملاحم /حدیث: 4348]
فوائد ومسائل:

فی الواقع اصحابِ نبی میں سے کو ئی شخص ایک صدی سے آگے نہیں بڑھا سبھی وفات پا گئے تھے۔
۔
۔
۔
تو اس کے بعد صحابیت کا دعوٰی کرنے والے کا دعوٰی غلط محض ہوا، جیسے کہ رتن ہندی کے بارے میں ذکر آتا ہے کہ اس نے پانچ سو سال بعد صحابی ہونے کا دعوٰٰ ی کیا تھا۔


اس حدیث کی روشنی میں جنابِ خضر کے متعلق بھی استدلال لیا جاتا ہے کہ وہ بھی وفات پا گئے ہیں، مگر ان کے بالمقابل دوسرے کہتے ہیں کہ وہ اس مو قعے پر زمین پر موجود ہی نہ تھے اس لیئے کہ حیاتِ خضر پر کو ئی مستند دلیل نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4348   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6479  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مقصد تھا کہ زمینی مخلوق میں سے،
آج رات جو لوگ زندہ موجود ہیں،
سو سال بعد ان میں سے کوئی زندہ نہیں رہے گا اور یہ بات آپ نے اپنی زندگی کے آخری مہینہ میں 11ھ میں فرمائی تھی اور آخری صحابی حضرت ابو طفیل رضی اللہ عنہ تک زندہ رہے ہیں،
اس کے بعد آپ کے ساتھیوں میں سے کوئی آدمی زندہ نہیں رہا،
لیکن بعض لوگوں نے اس حدیث سے یہ سمجھ لیا کہ سو سال بعد قیامت قائم ہو جائے گی اور حضرت ابن عمر انہیں لوگوں کی تردید کرنا چاہتے ہیں،
اس لیے اس رات کے بعد پیدا ہونے والے اس کا مصداق نہیں ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6479