صحيح مسلم
كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ -- حسن سلوک، صلہ رحمی اور ادب
4. باب فَضْلِ صِلَةِ أَصْدِقَاءِ الأَبِ وَالأُمِّ وَنَحْوِهِمَا:
باب: ماں باپ کے دوستوں کے ساتھ سلوک کر نے کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 6513
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ أَبِي الْوَلِيدِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ : أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَعْرَابِ لَقِيَهُ بِطَرِيقِ مَكَّةَ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ وَحَمَلَهُ عَلَى حِمَارٍ كَانَ يَرْكَبُهُ وَأَعْطَاهُ عِمَامَةً، كَانَتْ عَلَى رَأْسِهِ، فَقَالَ ابْنُ دِينَارٍ: فَقُلْنَا لَهُ: أَصْلَحَكَ اللَّهُ إِنَّهُمُ الْأَعْرَابُ، وَإِنَّهُمْ يَرْضَوْنَ بِالْيَسِيرِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: إِنَّ أَبَا هَذَا كَانَ وُدًّا لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ أَبَرَّ الْبِرِّ صِلَةُ الْوَلَدِ أَهْلَ وُدِّ أَبِيهِ ".
ولید بن ولید نے عبداللہ بن دینار سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ان کو مکہ مکرمہ کے راستے میں ایک بدوی شخص ملا، حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ان کو سلام کیا اور جس گدھے پر خود سوار ہوتے تھے اس پر اسے بھی سوار کر لیا اور اپنے سر پر جو عمامہ تھا وہ اتار کر اس کے حوالے کر دیا۔ ابن دینار نے کہا: ہم نے ان سے عرض کی: اللہ تعالیٰ آپ کو ہر نیکی کی توفیق عطا فرمائے! یہ بدو لوگ تھوڑے دیے پر راضی ہو جاتے ہیں۔ تو حضرت عبداللہ (بن عمر) رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس شخص کا والد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا محبوب دوست تھا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: "والدین کے ساتھ بہترین سلون ان لوگوں کے ساتھ حسن سلوک ہے جن کے ساتھ اس کے والد کو محبت تھی۔"
عبداللہ بن دینار رحمۃ اللہ علیہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی انہیں مکہ کے راستہ میں ملا تو حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے سلام کہا اور گدھے پرسوارتھے،وہ اسے سواری کے لیے دے دیا اور اسے ا پنے سروالی پگڑی عنایت کی،ابن دینار رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں،چنانچہ میں نے ان سے کہا،اللہ تعالیٰ آپ کےحالات درست رکھے،یہ جنگلی لوگ ہیں اور یہ لوگ معمولی چیز پر بھی خوش ہوجاتے ہیں تو حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا،اس کا باپ،عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دوست تھا اورمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے،"سب سے بڑی وفاداری اور نیکی یہ ہے کہ اولاد اپنے باپ سے محبت کرنے والوں سے تعلق رکھے۔"
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6513  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
ودياود:
محبت و مودت کو کہتے ہیں اور یہاں مراد،
محبت کرنے والا دوست ہے۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے،
باپ کی خدمت اور حسن سلوک کی ایک اعلیٰ قسم یہ ہے کہ اس کی وفات کے بعد اس کے دوستوں کے ساتھ احترام و اکرام اور محبت و مودت کا تعلق رکھا جائے اور باپ کی دوستی و محبت کا حق ادا کیا جائے اور اس میں انسان کی ماں بھی داخل ہے،
کیونکہ سنن کی روایت میں ماں باپ دونوں کے اہل قرابت کے ساتھ حسن سلوک اور اہل محبت کے اکرام و احترام کو اولاد پر ماں باپ کے مرنے کے بعد ان کا حق بتایا گیا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6513