صحيح البخاري
كِتَاب الْعِلْمِ -- کتاب: علم کے بیان میں
43. بَابُ الإِنْصَاتِ لِلْعُلَمَاءِ:
باب: اس بارے میں کہ عالموں کی بات خاموشی سے سننا ضروری ہے۔
حدیث نمبر: 121
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ مُدْرِكٍ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ جَرِيرٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ: اسْتَنْصِتِ النَّاسَ، فَقَالَ:" لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ".
ہم سے حجاج نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھے علی بن مدرک نے ابوزرعہ سے خبر دی، وہ جریر رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے حجۃ الوداع میں فرمایا کہ لوگوں کو بالکل خاموش کر دو (تاکہ وہ خوب سن لیں) پھر فرمایا، لوگو! میرے بعد پھر کافر مت بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 121  
´عالموں کی بات خاموشی سے سننا ضروری ہے`
«. . . عَنْ جَرِيرٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ: اسْتَنْصِتِ النَّاسَ، فَقَالَ: لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ . . .»
. . . جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے حجۃ الوداع میں فرمایا کہ لوگوں کو بالکل خاموش کر دو (تاکہ وہ خوب سن لیں) پھر فرمایا، لوگو! میرے بعد پھر کافر مت بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ الإِنْصَاتِ لِلْعُلَمَاءِ: 121]

تشریح:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحتیں فرمانے سے پہلے جریر کو حکم دیا کہ لوگوں کو توجہ سے بات سننے کے لیے خاموش کریں، باب کا یہی منشا ہے کہ شاگرد کا فرض ہے استاد کی تقریر خاموشی اور توجہ کے ساتھ سنے۔ حضرت جریر رضی اللہ عنہ 10ھ میں حجۃ الوداع سے پہلے مسلمان ہو چکے تھے، کافر بن جانے سے مراد کافروں کے سے فعل کرنا مراد ہے۔ کیونکہ ناحق خون ریزی مسلمان کا شیوہ نہیں۔ مگر صد افسوس کہ تھوڑے ہی دنوں بعد امت میں فتنے فساد شروع ہو گئے جو آج تک جاری ہیں، امت میں سے سب سے بڑا فتنہ ائمہ کی تقلید محض کے نام پر افتراق و انتشار پیدا کرنا ہے۔ مقلدین زبان سے چاروں اماموں کو برحق کہتے ہیں۔ مگر پھر بھی آپس میں اس طرح لڑتے جھگڑتے ہیں گویا ان سب کا دین جدا جدا ہے۔ تقلید جامد سے بچنے والوں کو غیر مقلد لامذہب کے ناموں سے یاد کرتے ہیں اور ان کی تحقیر و توہین کرنا کارثواب جانتے ہیں۔ «والي الله المشتكيٰ»
اقبال مرحوم نے سچ فرمایا:
«اگر تقلید بودے شیوہ خوب . . . پیغمبر ہم رہ اجداد نہ رفتے»
یعنی تقلید کا شیوہ اگر اچھا ہوتا تو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اپنے باپ دادا کی راہ پر چلتے مگر آپ نے اس روش کی مذمت فرمائی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 121   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3942  
´(فرمان نبوی) تم میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ان کی طرح ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔`
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں فرمایا: لوگوں کو خاموش کرو پھر فرمایا: تم لوگ میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ تم میں سے بعض بعض کی گردن مارنے لگے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3942]
اردو حاشہ:
  فوائد و مسائل:
(1)
بزرگ شخصیت کی بات سننے کے لیے خاموشی اختیار کرنا اور بات کرنے والوں کو خاموش کرانا احترام کا تقاضہ بھی ہے اور اس کی نصیحت سے مستفید ہونے کے لیے شرط بھی۔

(2)
مسلمانوں کو آپس کے اختلافات افہام و تفہیم سے طے کرنے چاہیئں اسلحہ کے زور پر نہیں۔

(3)
مسلمانوں کا باہمی اتفاق اللہ کا عظیم احسان ہے جیساکہ ارشاد ہے:
﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ﴾  (آل عمران 3/ 103)
 تم پر اللہ کی جو نعمت ہوئی اسے یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے پھر اللہ نے تمھارے دلوں میں محبت ڈال دی اور تم اس کے احسان سے بھائی (بھائی)
بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر اس نے تمھیں اس میں گرنے سے بچالیا۔

(4)
مسلمانوں کو چاہیے کہ آپس میں محبت پیدا کرنے والی چیزوں کو اختیار کریں مثلاً:
ایک دوسرے کو سلام کرنا، نماز باجماعت میں ایک دوسرے سے مل کر کھڑے ہونا اور صفیں سیدھی رکھنا وغیرہ۔
اور ایسے کاموں سے پرہیز کریں جو اختلاف اور دشمنی پیدا کرنے والے ہیں مثلاً:
کسی کی بے عزتی کرنا، ظلم زیادتی گالی اور غیبت وغیرہ۔

(5)
قتل وغارت بہت بڑا جرم ہے جو مسلمانوں کو زیب نہیں دیتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3942   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:121  
121. حضرت جریر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ان سے فرمایا: لوگوں کو خاموش کراؤ۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: اے لوگو! میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں مار کے، پھر کافر نہ بن جانا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:121]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حصول علم کی صورت اورحفظ حدیث کے طریقے سے آگاہ فرماتے ہیں کہ جب استاد احادیث بیان کرے تو پوری توجہ اور انہماک سے سننا چاہیے تاکہ کوئی بات رہ نہ جائے، نیز یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ طلباء کے لیے اساتذہ کی توقیر و تعظیم انتہائی ضروری ہے۔
اسی طرح دیگر علماء کی باتیں بھی پورے اطمینان وسکون سے اور ہمہ تن گوش ہوکر سنی جائیں کیونکہ یہ حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثاء آپ کی سنتوں کے محافظ اور آپ کی لائی ہوئی شریعت کے امین ہیں۔
اگرچہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لوگوں کو خاموش کرانے کا ذکر ہے تاہم امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان قائم کر کے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ حدیث میں مذکورہ واقعہ گو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق ہے، تاہم اس کا حکم عام ہے۔
احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عالم دین کو لوگوں کی خاموشی کا انتظار کرنا چاہیے، اگرجلدی یاضروری کام ہو تو انھیں خاموش بھی کرایا جاسکتا ہے۔
بہرحال عوام الناس کے لیے ضروری ہے کہ وہ علماء کی باتوں کو پوری توجہ سے سنیں اورانھیں یاد بھی رکھیں۔
اور یہ اس صورت میں ممکن ہے جب سننے والا توجہ سے سنے اور اسے سمجھے۔
اگر سنتے وقت بے پروائی سے کام لیا تو اسے یاد کیسے کیا جا سکتا ہے۔
امام ثوری رحمۃ اللہ علیہ علم کے تقاضوں کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
علم کے لیے پہلے توجہ، پھر خاموشی، اس کے بعد یاد کرنا اور اس پر عمل کرنا، پھر اسے دوسروں تک پہنچانا ہے۔
(فتح الباري: 287/1)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد تم پھر کافر مت ہوجانا، محدثین نے اس کے دومفہوم بیان کیے ہیں:
(الف)
۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مل جل کر بھائیوں کی طرح رہیں۔
اگر مسلمان باہم دست وگریباں ہوں گے اور ایک دوسرے کو قتل کریں گے تو گویا انھوں نے کافروں کا شعار اپنا لیا ہے کیونکہ یہ کافروں کا کام ہے کہ وہ خواہ مخواہ مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں۔
اس صورت میں کفر اپنے حقیقی معنی میں نہیں ہوگا بلکہ کبیرہ گناہ کے معنی میں ہوگا۔
(ج)
۔
ایک معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میرے بعد ایسا نہ ہو کہ تم اپنی راہ تبدیل کرلو اور مرتد ہو کر ایک دوسرے کے قتل کو حلال سمجھنے لگو۔
اس صورت میں کفر اپنے حقیقی معنوں میں ہوگا کیونکہ مسلمانوں کے قتل کو اپنے لیے حلال سمجھنے والا بلاشبہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
افسوس صد افسوس کہ جن مسلمانوں کو اخوت وہمدردی کا سبق دیا گیا تھا، وہ آج افتراق و انتشار کا شکار ہیں اور آپس میں اس طرح لڑتے ہیں گویا ان سب کا دین جدا جدا ہے۔
من از بیگانگاں ہر گز ننالم کہ بامن آنچہ کردآں آشنا کرد
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 121