صحيح البخاري
كِتَاب الْجَنَائِزِ -- کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
44. بَابُ الْبُكَاءِ عِنْدَ الْمَرِيضِ:
باب: مریض کے پاس رونا کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 1304
حَدَّثَنَا أَصْبَغُ، عَنْ ابْنِ وَهْبٍ , قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْحَارِثِ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , قَالَ:" اشْتَكَى سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ شَكْوَى لَهُ فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ فَوَجَدَهُ فِي غَاشِيَةِ أَهْلِهِ , فَقَالَ: قَدْ قَضَى؟ , قَالُوا: لَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَبَكَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَأَى الْقَوْمُ بُكَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَكَوْا , فَقَالَ: أَلَا تَسْمَعُونَ إِنَّ اللَّهَ لَا يُعَذِّبُ بِدَمْعِ الْعَيْنِ وَلَا بِحُزْنِ الْقَلْبِ وَلَكِنْ يُعَذِّبُ بِهَذَا وَأَشَارَ إِلَى لِسَانِهِ أَوْ يَرْحَمُ، وَإِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ، وَكَانَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَضْرِبُ فِيهِ بِالْعَصَا وَيَرْمِي بِالْحِجَارَةِ وَيَحْثِي بِالتُّرَابِ".
ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا ‘ ان سے عبداللہ بن وہب نے کہا کہ مجھے خبر دی عمرو بن حارث نے ‘ انہیں سعید بن حارث انصاری نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کسی مرض میں مبتلا ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیادت کے لیے عبدالرحمٰن بن عوف ‘ سعد بن ابی وقاص اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کے ساتھ ان کے یہاں تشریف لے گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر گئے تو تیمار داروں کے ہجوم میں انہیں پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا وفات ہو گئی؟ لوگوں نے کہا نہیں یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (ان کے مرض کی شدت کو دیکھ کر) رو پڑے۔ لوگوں نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو روتے ہوئے دیکھا تو وہ سب بھی رونے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سنو! اللہ تعالیٰ آنکھوں سے آنسو نکلنے پر بھی عذاب نہیں کرے گا اور نہ دل کے غم پر۔ ہاں اس کا عذاب اس کی وجہ سے ہوتا ہے ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان کی طرف اشارہ کیا (اور اگر اس زبان سے اچھی بات نکلے تو) یہ اس کی رحمت کا بھی باعث بنتی ہے اور میت کو اس کے گھر والوں کے نوحہ و ماتم کی وجہ سے بھی عذاب ہوتا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ میت پر ماتم کرنے پر ڈنڈے سے مارتے ‘ پتھر پھینکتے اور رونے والوں کے منہ میں مٹی جھونک دیتے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1593  
´میت پر نوحہ خوانی سے اس کو عذاب ہوتا ہے۔`
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میت پر نوحہ کرنے کی وجہ سے اسے عذاب دیا جاتا ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1593]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اگر مرنے والے نے یہ وصیت کی ہو کہ میرے مرنے پر نوحہ کیا جائے۔
تو وہ نوحہ کرنے والیوں کے گناہ میں شریک ہے۔
اس لئے سزا کا مستحق ہے۔
اسی طرح اگر اس کے خاندان میں بین کرنے، بال نوچنے، گریبان چاک کرنے، اور اس طرح کی حرکات کا رواج ہو۔
اور وہ انہیں منع نہ کرے۔
بلکہ اپنے قول وفعل سے اس کی حوصلہ افزائی کرے۔
تب بھی زندوں کےنوحہ کرنے کی وجہ سے اس مردے کو عذاب ہوگا۔
البتہ اگر فوت ہونے والا شخص ان کاموں کو پسند نہیں کرتا تھا۔
نہ اس کی حوصلہ افزائی کرتا تھا۔
بلکہ منع کیا کرتا تھا تو اب دوسرے کے اعمال کی ذمہ داری اس پر نہیں اس لئے اسے عذاب نہیں ہوگا۔ 2۔
ممکن ہے حدیث کا یہ مطلب ہو۔
کہ نوحہ کرنے سے میت کو تکلیف ہوتی ہے۔
اسے اس بات پر دکھ ہوتا ہے کہ اس کی وفات پر ناجائز کام کیے جارہے ہیں۔
واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1593   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1304  
1304. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: حضرت سعد بن عبادہ ؓ بیمار ہوئے تو نبی ﷺ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ، سعد بن ابی وقاص اور عبد اللہ بن مسعود ؓ کی معیت میں ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ جب آپ وہاں پہنچے تو اسے اپنے اہل خانہ کے درمیان پایا تو آپ نے دریافت فرمایا:آیا انتقال ہو گیا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ!نہیں پھر نبی ﷺ روپڑے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ کو روتا دیکھ کر دوسرے لوگ بھی رونے لگے۔ پھر اس کے بعد آپ نے فرمایا:کیا تم سنتے نہیں ہو؟اللہ تعالیٰ آنکھ کے رونے اور دل کے غمزدہ ہونے سے عذاب نہیں دیتا بلکہ۔۔۔آپ نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا۔۔۔اس کی وجہ سے عذاب یا رحم کرتا ہے۔ بے شک میت کو اس کے عزیزوں کے چلا کر گریہ وزاری کرنے سے عذاب دیا جا تاہے۔ حضرت عمرؓ نوحہ کرنے والوں کو لاٹھی اور پتھروں سے ماراکرتے تھے اور ان کے منہ میں خاک [صحيح بخاري، حديث نمبر:1304]
حدیث حاشیہ:
فوجدہ في غاشیة أهله۔
کا ترجمہ بعضوں نے یوں کیا ہے:
دیکھا تو وہ بے ہوش ہیں اور ان کے گردا گرد لوگ جمع ہیں۔
آپ نے لوگوں کو اکٹھا دیکھ کر یہ گمان کیا کہ شاید سعد ؓ کا انتقال ہوگیا۔
آپ نے زبان کی طرف اشارہ فرماکر ظاہر فرمایا کہ یہی زبان باعث رحمت ہے، اگر اس سے کلمات خیر نکلیں اور یہی باعث عذاب ہے، اگر اس سے بُرے الفاظ نکالے جائیں۔
اس حدیث سے حضرت عمر ؓ کے جلال کا بھی اظہار ہوا کہ آپ خلاف شریعت رونے پیٹنے والوں پر انتہائی سختی فرماتے۔
في الواقع اللہ طاقت دے تو شرعی اوامر ونواہی کے لیے پوری طاقت سے کام لینا چاہیے۔
حضرت سعد بن عبادہ انصاری خزرجی ؓ بڑے جلیل القدر صحابی ہیں۔
عقبہ ثانیہ میں شرف الاسلام سے مشرف ہوئے۔
ان کا شمار بارہ نقباء میں ہے۔
انصار کے سرداروں میں سے تھے اور شان وشوکت میں سب سے بڑھ چڑھ کر تھے۔
بدر کی مہم کے لیے آنحضرت ﷺ نے جو مشاورتی اجلاس طلب فرمایا تھا اس میں حضرت سعد ؓ نے فرمایا کہ یا رسول اللہ ﷺ! آپ کا اشارہ ہماری طرف ہے۔
اللہ کی قسم! اگر آپ ﷺ ہم انصار کو سمندر میں کودنے کا حکم فرمائیں گے تو ہم اس میں کود پڑیں گے اور اگر خشکی میں حکم فرمائیں گے تو ہم وہاں بھی اونٹوں کے کلیجے پگھلاویں گے۔
آپ کی اس پر جوش تقریر سے نبی کریم ﷺ بے حد خوش ہوئے۔
اکثر غزوات میں انصار کا جھنڈا اکثر آپ ہی کے ہاتھوں میں رہتا تھا۔
سخاوت میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔
خاص طور پر اصحاب صفہ پر آپ کے جو دو کرم کی بارش بکثرت برساکرتی تھی۔
نبی کریم ﷺ کو آپ سے بے انتہا محبت تھی۔
اسی وجہ سے آپ کی اس بیماری میں حضور ﷺ آپ کی عیادت کے لیے تشریف لائے تو آپ کی بیماری کی تکلیف دہ حالت دیکھ کر حضور ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔
15ھ میں بہ زمانہ خلافت فاروقی سرزمین شام میں بمقام حوران آپ کی شہادت اس طرح ہوئی کہ کسی دشمن نے نعش مبارک کو غسل خانہ میں ڈال دیا۔
انتقال کے وقت ایک بیوی اور تین بیٹے آپ نے چھوڑے۔
اور حوران ہی میں سپرد خاک کئے گئے۔
رضي اللہ عنه وأرضاہ آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1304   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1304  
1304. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: حضرت سعد بن عبادہ ؓ بیمار ہوئے تو نبی ﷺ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ، سعد بن ابی وقاص اور عبد اللہ بن مسعود ؓ کی معیت میں ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ جب آپ وہاں پہنچے تو اسے اپنے اہل خانہ کے درمیان پایا تو آپ نے دریافت فرمایا:آیا انتقال ہو گیا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ!نہیں پھر نبی ﷺ روپڑے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ کو روتا دیکھ کر دوسرے لوگ بھی رونے لگے۔ پھر اس کے بعد آپ نے فرمایا:کیا تم سنتے نہیں ہو؟اللہ تعالیٰ آنکھ کے رونے اور دل کے غمزدہ ہونے سے عذاب نہیں دیتا بلکہ۔۔۔آپ نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا۔۔۔اس کی وجہ سے عذاب یا رحم کرتا ہے۔ بے شک میت کو اس کے عزیزوں کے چلا کر گریہ وزاری کرنے سے عذاب دیا جا تاہے۔ حضرت عمرؓ نوحہ کرنے والوں کو لاٹھی اور پتھروں سے ماراکرتے تھے اور ان کے منہ میں خاک [صحيح بخاري، حديث نمبر:1304]
حدیث حاشیہ:
(1)
حدیث میں جس رونے سے منع کیا گیا ہے وہ میت پر واویلا کرتے ہوئے رونا دھونا ہے۔
جب کوئی ایسی نشانی ظاہر ہو جس کی وجہ سے مریض کے زندہ رہنے کی امید نہ ہو تو ایسے حالات میں افسوس کرنا اور آنسو بہانا جائز ہے بصورت دیگر مریض کو تسلی دینی چاہیے۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ آنکھ کے آنسو اور دل کے رنج و صدمہ پر مؤاخذہ نہیں کرے گا، البتہ زبان سے بے جا کلمات نکالنے اور غیر مشروع نوحہ کرنے پر ضرور مؤاخذہ ہو گا اور اس طرح رونے دھونے پر میت سے بھی باز پرس ہو گی بشرطیکہ وہ وصیت کر گیا ہو یا انہیں روک سکتا تھا لیکن انہیں روکے بغیر ہی دنیا سے چل بسا، لہذا ہمیں اس پہلو سے خبردار رہنا چاہیے۔
حافظ ابن حجر ؒ کی تصریح کے مطابق یہ واقعہ حضرت ابراہیم ؓ کی وفات کے بعد کا ہے، کیونکہ اس موقع پر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ ہمراہ تھے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے آبدیدہ ہونے پر کوئی اعتراض نہیں کیا، کیونکہ انہیں پہلے علم ہو چکا تھا کہ مطلق رونے پر کوئی وعید نہیں، جبکہ ابراہیم ؓ کی وفات کے موقع پر آپ نے اعتراض کیا تھا۔
(فتح الباري: 324/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1304