صحيح البخاري
كِتَاب الْجَنَائِزِ -- کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
49. بَابُ مَنْ قَامَ لِجَنَازَةِ يَهُودِيٍّ:
باب: اس شخص کے بارے میں جو یہودی کا جنازہ دیکھ کر کھڑا ہو گیا۔
حدیث نمبر: 1313
وَقَالَ أَبُو حَمْزَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ عَمْرٍو، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى , قَالَ: كُنْتُ مَعَ قَيْسٍ وسَهْلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , فَقَالَا: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ زَكَرِيَّاءُ: عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى: كَانَ أَبُو مَسْعُودٍ وقَيْسٌ يَقُومَانِ لِلْجَنَازَةِ.
اور ابوحمزہ نے اعمش سے بیان کیا ‘ ان سے عمرو نے ‘ ان سے ابن ابی لیلیٰ نے کہ میں قیس اور سہل رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا۔ ان دونوں نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ اور زکریا نے کہا ان سے شعبی نے اور ان سے ابن ابی لیلیٰ نے کہ ابومسعود اور قیس رضی اللہ عنہما جنازہ کے لیے کھڑے ہو جاتے تھے۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1313  
1313. حضرت ابن ابی لیلیٰ ہی سے روایت ہے انھوں نے کہا:میں حضرت قیس اور حضرت سہل ؓ کے ساتھ تھا ان دونوں نے فرمایا کہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ تھےابن ابی لیلیٰ سے ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت ابو مسعود ؓ اور حضرت قیس ؓ دونوں جنازے کے لیے کھڑے ہو جاتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1313]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے دل میں محض انسانیت کے ناتے لوگوں سے کس قدر محبت تھی قطع نظر اس سے کہ وہ مسلمان ہے یا یہودی، جنازے کو دیکھ کر کھڑے ہو جاتے تھے۔
اس کے متعلق کئی ایک وجوہ بیان کی گئی ہیں:
انہی احادیث میں ہے کہ جان کے معاملے میں مسلم اور غیر مسلم سب برابر ہیں۔
زندگی اور موت سے ہر ایک نے دوچار ہوتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ احترام انسانیت کے پیش نظر کھڑے ہوتے تھے۔
بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ جنازے کے لیے کھڑا ہونا اللہ تعالیٰ کے اجلالِ حکم اور موت کی عظمت کے پیش نظر تھا اور قیام سے اس کا استقبال کرنا چاہیے۔
موت گھبراہٹ ڈالنے والی ہے، خواہ کسی کی بھی ہو۔
اسے دیکھ کر گھبراہٹ ہونی چاہیے اور اس سے مرعوب ہو کر کھڑے ہو جانا چاہیے۔
(2)
سنن نسائی وغیرہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرشتوں کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے (سنن النسائي، الجنائز، حدیث: 1931)
اور دوسروں کو بھی کھڑے ہونے کا حکم دیتے۔
بہرحال یہ قیام پہلے تھا بعد میں اسے ترک کر دیا گیا تھا، جیسا کہ ہم اس کی تفصیل پہلے بیان کر آئے ہیں۔
والله أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1313