صحيح البخاري
كِتَاب الْجَنَائِزِ -- کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
51. بَابُ السُّرْعَةِ بِالْجِنَازَةِ:
باب: جنازے کو جلد لے چلنا۔
وَقَالَ أَنَسٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنْتُمْ مُشَيِّعُونَ وَامْشِ بَيْنَ يَدَيْهَا وَخَلْفَهَا وَعَنْ يَمِينِهَا وَعَنْ شِمَالِهَا , وَقَالَ غَيْرُهُ: قَرِيبًا مِنْهَا.
‏‏‏‏ اور انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم جنازے کو پہنچا دینے والے ہو تم اس کے سامنے بھی چل سکتے ہو پیچھے بھی ‘ دائیں بھی اور بائیں بھی ‘ سب طرف چل سکتے ہو اور انس رضی اللہ عنہ کے سوا اور لوگوں نے کہا جنازے کے قریب چلنا چاہیے۔
حدیث نمبر: 1315
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , قَالَ: حَفِظْنَاهُ مِنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" أَسْرِعُوا بِالْجِنَازَةِ فَإِنْ تَكُ صَالِحَةً فَخَيْرٌ تُقَدِّمُونَهَا إِلَيْهِ، وَإِنْ يَكُ سِوَى ذَلِكَ فَشَرٌّ تَضَعُونَهُ عَنْ رِقَابِكُمْ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم نے زہری سے سن کر یہ حدیث یاد کی ‘ انہوں نے سعید بن مسیب سے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنازہ لے کر جلد چلا کرو کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو تم اس کو بھلائی کی طرف نزدیک کر رہے ہو اور اگر اس کے سوا ہے تو ایک شر ہے جسے تم اپنی گردنوں سے اتارتے ہو۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 460  
´میت کو دفن کرنے میں جلدی کرنی چاہیے`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنازہ لے جانے میں جلدی کیا کرو۔ اس لئے کہ اگر مرنے والا صالح اور نیک آدمی تھا تو اس کے لئے بہتر ہو گا کہ اسے بہتر جگہ کی طرف جلدی لے جاؤ اور اگر دوسرا ہے (برا آدمی ہے) تو اپنی گردن سے اتار کر رکھ دو۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 460]
لغوی تشریح:
«اَسْرِعُوا» چلنے میں جلدی کرو، یا اس کا مطلب یہ ہے کہ موت کے وقوع کے یقینی ہونے کے بعد میت کی تجہیز و تکفین میں جلدی کرو۔
«تَضَعُونَهُ» وضع سے ماخوذ ہے جس کے معنی اتار کر رکھ دینے کے ہیں۔ یہ حمل کے مقابلے میں بولا جاتا ہے جس کے معنی اٹھانے کے ہوتے ہیں۔ اور یہ کنایۃ اپنے سے دور کر دینے کے معنی میں مستعمل ہے۔

فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وفات ہو جانے کی بعد میت کو دفن کرنے میں جلدی کرنی چاہیے، دور دراز کے اقارب و احباب کو جمع کرنا اور ان کی آمد کے انتظار میں تاخیر کرنا خلاف سنت ہے، نیز اسی طرح اگر کوئی شخص اپنے گھر سے دور کسی اور جگہ یا کسی دوسرے ملک میں فوت ہو جاتا ہے تو اسے اپنے ملک میں واپس لانے کے بجائے ادھر ہی دفن کر دینا چاہیے جس ملک میں اس کی وفات ہوئی ہے، مثلاً: اگر کوئی شخص حج یا عمرہ کرنے کے لیے سعودی عرب جاتا ہے اور وہاں اس کی موت واقع ہو جاتی ہے تو اسے واپس پاکستان لانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اسے ادھر ہی دفن اقرب الی السنہ ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 460   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1477  
´جنازہ میں شرکت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنازہ کو جلدی لے کر چلو کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو تم اس کو نیکی کی طرف جلدی پہنچا دو گے، اور اگر بد ہے تو بدی کو اپنی گردن سے اتار پھینکو گے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1477]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
میت کو غسل دینے کے بعد کفن کرنے میں بلاوجہ تاخیر کرنا درست نہیں۔

(2)
بعض لوگ دفن کرنے میں اس لئے دیر کردیتے ہیں۔
کہ متوفی کے بعض قریبی رشتہ دار دوسرے شہر یا ملک سے آئیں گے تب دفن کیا جائے گا۔
یہ رواج غلط ہے۔
بعد میں آنے والے قبر پر جا کر میت کے حق میں دعا کریں۔
اورچاہیں تو قبر پر نماز جنازہ ادا کر لیں۔
اس کی دلیل صحیح بخاری کی یہ روایت ہے۔
کہ ایک خاتون مسجد نبویﷺ کی صفائی کیا کرتی تھی۔
ایک رات اس کی وفات ہوگئی۔
صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین نے رسول اللہﷺ کوتکلیف دینا مناسب نہ سمجھا اور اس کا جنازہ پڑھ کر اسے دفن کردیا۔
جب رسول اللہﷺ کو اس خاتون کی وفات کا علم ہوا تو اس کی قبر پر جا کر جنازہ پڑھا۔
دیکھئے: (صحیح البخاري، الجنائز، باب الصلاۃ علی القبر بعد ما یدفن، حدیث: 1337)

(3)
جلدی دفن کرنے کی ایک حکمت یہ بھی ہے۔
کہ نیک مومن جلد اپنے ٹھکانے پر پہنچ جائے کیونکہ اس کے لئے اس جہاں میں خیر ہی خیر ہے اور بُرا آدمی جتنی جلدی گھر سے نکلے اتنا ہی بہتر ہے تاکہ دفن کرنے والے اپنے فرض سے جلد سبک دوش ہوجایئں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1477   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1015  
´جنازہ تیزی سے لے جانے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جنازہ تیزی سے لے کر چلو ۱؎، اگر وہ نیک ہو گا تو اسے خیر کی طرف جلدی پہنچا دو گے، اور اگر وہ برا ہو گا تو اسے اپنی گردن سے اتار کر (جلد) رکھ دو گے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1015]
اردو حاشہ: 1؎:
جمہورکے نزدیک امراستحباب کے لیے ہے،
ابن حزم کہتے ہیں کہ وجوب کے لیے ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1015   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3181  
´جنازہ جلدی لے جانے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنازہ لے جانے میں جلدی کیا کرو کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو تم اسے نیکی کی طرف پہنچانے میں جلدی کرو گے اور اگر نیک نہیں ہے تو تم شر کو جلد اپنی گر دنوں سے اتار پھینکو گے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3181]
فوائد ومسائل:
وفات ہوجانے کے بعد میت کو دفن کرنے میں جلدی کرنی چاہیے۔
دوردراز کے اقارب واحباب کو جمع کرنا اور ان کی آمد کے انتظار میں تاخیر کرنا ایک غیر شرعی اور نامناسب عمل ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3181   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1315  
1315. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:جنازے کو جلدی لے کر چلو کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو تم اسے خیر کی طرف لے جارہے ہو اور اگر براہے تو بری چیز کو اپنی گردنوں سے اتار کر سبکدوش ہو جاؤگے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1315]
حدیث حاشیہ:
(1)
جنازے کو جلدی لے جانے سے مراد دوڑنا نہیں بلکہ عادت سے زیادہ تیز چلنا ہے۔
علماء کے نزدیک ایسا کرنا مستحب ہے، بلکہ پروقار طریقے سے جلدی کی جائے، تیز بھاگنے میں کسی غیر متوقع حادثے کا اندیشہ ہے۔
اس سے یہ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ مرنے کے بعد اس کی تکفین میں جلدی کی جائے۔
(2)
البتہ طاعون زدہ، فالج کے مریض اور غشی طاری ہونے سے مرنے والے کے متعلق جلدی نہ کی جائے جب تک اس کے مرنے کی تسلی نہ ہو جائے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے کم از کم ایک دن اور ایک رات انتظار کرنے کا لکھا ہے۔
(فتح الباري: 236/3)
لیکن انتظار کی مذکورہ تحدید محل نظر ہے۔
صرف موت کے وقوع کا یقین ہونا ضروری ہے، خواہ چند گھنٹوں کے بعد ہو جائے۔
بہرحال مرنے کے بعد میت کو زیادہ دیر تک رکھنا درست نہیں اور جنازہ اٹھا کر جلدی جلدی چلنا مستحب ہے۔
اس پر علمائے امت کا اتفاق ہے۔
والله أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1315