صحيح مسلم
كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ -- حسن سلوک، صلہ رحمی اور ادب
37. باب تَحْرِيمِ تَعْذِيبِ الْهِرَّةِ وَنَحْوِهَا مِنَ الْحَيَوَانِ الَّذِي لاَ يُؤْذِي:
باب: جو جانور ستاتا نہ ہو اس کو تکلیف دینا حرام ہے جیسے بلی کو۔
حدیث نمبر: 6677
وحَدَّثَنِيهِ نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عُذِّبَتِ امْرَأَةٌ فِي هِرَّةٍ أَوْثَقَتْهَا، فَلَمْ تُطْعِمْهَا وَلَمْ تَسْقِهَا وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ ".
عبیداللہ بن عمر نے نافع سے، انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک عورت کو بلی کے سبب عذاب دیا کیا جسے اس نے باندھا رکھا تھا، اس نے اسے کھانے کو دیا نہ پینے کو دیا، نہ اسے چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے شکار سے کھا لیتی۔"
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" ایک عورت بلی کے باندھنے کے سبب عذاب دی گئی،نہ اس نے اسے کھلایا اور نہ اسے پلایا اور نہ اسے چھوڑا کہ وہ زمین کے جاندار(حشرت) کھالیتی۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2365  
´پانی پلانے کے ثواب کا بیان`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" عُذِّبَتِ امْرَأَةٌ فِي هِرَّةٍ حَبَسَتْهَا حَتَّى مَاتَتْ جُوعًا، فَدَخَلَتْ فِيهَا النَّارَ، قَالَ: فَقَالَ: وَاللَّهُ أَعْلَمُ لَا أَنْتِ أَطْعَمْتِهَا وَلَا سَقَيْتِهَا حِينَ حَبَسْتِيهَا، وَلَا أَنْتِ أَرْسَلْتِهَا فَأَكَلَتْ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ . . .»
. . . عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ایک عورت کو عذاب، ایک بلی کی وجہ سے ہوا جسے اس نے اتنی دیر تک باندھے رکھا تھا کہ وہ بھوک کی وجہ سے مر گئی۔ اور وہ عورت اسی وجہ سے دوزخ میں داخل ہوئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا تھا اور اللہ تعالیٰ ہی زیادہ جاننے والا ہے کہ جب تو نے اس بلی کو باندھے رکھا اس وقت تک نہ تو نے اسے کھلایا نہ پلایا اور نہ چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے ہی کھا کر اپنا پیٹ بھر لیتی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشُّرْبِ والْمُسَاقَاةِ: 2365]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2365 کا باب: «بَابُ فَضْلِ سَقْيِ الْمَاءِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ ترجمۃ الباب کے ذریعے یہ ثابت فرما رہے ہیں کہ ہر جاندار پر احسان کرنا لازم ہے، جانوروں میں چاہے وہ جانور جو حلال ہوں یا وہ حرام ہوں۔ بالغرض ہر ایک کے ساتھ احسان کیا جائے۔ ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے پانی پلانے کی فضیلت پر اشارہ فرمایا ہے جبکہ حدیث میں پانی پلانے کی فضیلت کا کوئی ذکر نہیں، بلکہ الٹا عذاب کا ذکر موجود ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«و مناسبت حديث الهرة للترجمة من جهة أن المرأة عوقبت على كونها لم تسقها، فمقتضاه أنها لو سقتها لم تعذب» [فتح الباري، ج 5، ص: 37]
بلی والی حدیث کی ترجمۃ الباب سے مناسبت کچھ اس طرح ہے کہ عورت کو عذاب اس لیے دیا گیا کہ اس نے بلی کو پیاسا رکھا۔ پس اس حدیث کا تقاضا یہ ہوا کہ اگر وہ اسے پیاسا نہ رکھتی تو عذاب نہ دیا جاتا، لہذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت موجود ہے۔
فائدہ:
جس عورت نے بلی کو باندھ کر رکھا وہ مسلمہ تھی یا کافرہ؟
ترجمۃ الباب سے اس کی کوئی وضاحت مع صراحت موجود نہیں ہے کہ وہ عورت مسلمان تھی یا کافرہ، یا عذاب اس کو اس کے کفر کی وجہ سے دیا جا رہا تھا یا بلی کے قید کرنے کے سبب . . .۔
قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ عورت کافرہ تھی اور اس کو عذاب اس کے کفر ہی کی وجہ سے دیا جا رہا تھا، اور اس عذاب میں زیادتی بلی کو بھوکا مارنے کی وجہ سے تھی، اور اس کا مومنہ نہ ہونے کی وجہ سے اس زیادتی عذاب کی بھی مستحق ہوئی تھی۔ اگر وہ مومنہ ہوتی تو اس کے صغائر تو کبائر سے اجتناب کی وجہ سے ویسے ہی معاف کر دیے جاتے۔ [المنهاج شرح صحيح مسلم، ج 14ص: 460]
ابوعیسی زکریا الانصاری نے فرمایا کہ:
بلی کے قید کے علاوہ اس کے عذاب کا دوسرا سبب بھی موجود ہے کہ وہ عورت کافرہ تھی۔ [منحة الباري، ج 5، ص: 136]
لہذا امام بزار رحمہ اللہ نے مسند بزار اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب البعث والنشور، ص: 53 میں ذکر فرمایا ہے کہ:
«أن المرأة كانت كافرة فاستحقت العذاب بكفرها و ظلمها»
یعنی وہ عورت کافرہ تھی، پس وہ عذاب کی مستحق ٹھہری اپنے کفر اور بلی پر ظلم کی وجہ سے۔
مجمع الزوائد میں علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل فرمائی ہے کہ وہ عورت کافرہ تھی۔ [مجمع الزوائد، ج 1، ص: 191]
تنبیہ: صاحب تفہیم البخاری نے «خشاش الأرض» کا ترجمہ گھانس پھونس کیا۔ اہل لغت کے نزدیک اس کا معنی گھاس پھونس معروف نہیں ہے، بلکہ اس کا ترجمہ زمین کے کیڑے مکوڑے کرنا معروف ہے۔
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
خشاش کیڑے مکوڑے، حشرات الارض، اس کا واحد خشاش ہے۔ [إرشاد الساري، ج 5، ص: 357]
مجمع البحار میں لکھا ہے:
«خشاش بفتح الخاء الشهر الثلاثة وهى هدام و قيل ضعاف الطير» [مجمع البحار، لغات الحديث، لفظ خ، ص: 48]
مقاییس اللغۃ میں لکھا ہے:
«وخشاش الأرض بتثليث الخاء: الدّواب» [مقاييس اللغة، ج 1، ص: 303، مادة خشش - الصحاح 1004/3، مادة خشش]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 365   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 992  
´پرورش و تربیت کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک عورت کو بلی کے قید کرنے میں عذاب دیا گیا جس نے بلی کو اتنی دیر تک باندھے رکھا کہ وہ مر گئی۔ اس عورت کو جہنم میں ڈال دیا گیا کہ نہ تو اس عورت نے بلی کو کچھ کھلایا اور نہ پلایا بلکہ باندھ رکھا اور نہ اسے آزاد چھوڑا کہ وہ زمین کے جانور کھا لیتی۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 992»
تخریج:
«أخرجه البخاري، المساقاة، باب فضل سقي الماء، حديث:2365، ومسلم، السلام، باب تحريم قتل الهرة، حديث:2242.»
تشریح:
1. سیاق دلالت کرتا ہے کہ اس عورت کو عذاب بلی کو کھانے پینے سے روکے رکھنے اور اسے بھوکا پیاسا مارنے کی وجہ سے دیا گیا۔
2. اس حدیث میں کوئی دلیل نہیں کہ بلی کو قتل کرنا حرام ہے اور نہ اس کے جواز کی دلیل ہے بلکہ اس مسئلے میں سکوت ہے۔
بہترین قول یہ ہے کہ جب بلی دشمنی پر اتر آئے تو اسے قتل کرنا جائز ہے۔
3. مصنف رحمہ اللہ اس حدیث کو اور اس سے پہلی حدیث کو اس باب میں اس لیے لائے ہیں تاکہ ذمہ دار اور پرورش کرنے والے کو ان کی ذمہ داری کی عظمت اور گراں باری پر متنبہ کریں اور اس پر خبردار کریں کہ جس کی کفالت کی ذمہ داری اس پر ہے‘ اس کی ضروریات زندگی کا خیال اور لحاظ اور اس سے ملاطفت اور حسن سلوک اس کے واجبات اور اس کے آداب میں سے ہے۔
اسے اہمیت نہ دینا‘ معمولی سمجھنا اور اسے ضائع کرنا اللہ کے ہاں کبیرہ گناہ ہے جس کا اس کے ہاں مؤاخذہ ہو گا اور اس وجہ سے اسے عذاب دیا جائے گا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 992