صحيح مسلم
كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ -- حسن سلوک، صلہ رحمی اور ادب
42. باب الْوَصِيَّةِ بِالْجَارِ وَالإِحْسَانِ إِلَيْهِ:
باب: ہمسائے کا حق اور اس کے ساتھ حسن سلوک۔
حدیث نمبر: 6687
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ ".
عمر بن محمد کے والد نے کہا: میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جبریل مجھے لگاتار ہمسائے کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کرتے رہے حتی کہ مجھے یقین ہونے لگا کہ وہ اسے وارث (بھی) بنا دیں گے۔"
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جبریل ؑ مجھے ہمیشہ پڑوسی سے حسن سلوک کی تاکید کرتے رہے حتی کہ میں نے گمان کیا کہ وہ یقیناً ہمسایہ کو وارث بنادیں گے۔"
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1942  
´پڑوسی کے حقوق کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے جبرائیل علیہ السلام پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی ہمیشہ وصیت (تاکید) کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ یہ اسے وراثت میں (بھی) شریک ٹھہرا دیں گے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1942]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎:
اس سے معلوم ہواکہ پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور اس کے حقوق کا خیال رکھنے کی اسلام میں کتنی اہمیت اور تاکید ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1942