صحيح البخاري
كِتَاب الْعِلْمِ -- کتاب: علم کے بیان میں
45. بَابُ مَنْ سَأَلَ وَهْوَ قَائِمٌ عَالِمًا جَالِسًا:
باب: کھڑے ہو کر کسی عالم سے سوال کرنا جو بیٹھا ہوا ہو (جائز ہے)۔
حدیث نمبر: 123
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الْقِتَالُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ فَإِنَّ أَحَدَنَا يُقَاتِلُ غَضَبًا وَيُقَاتِلُ حَمِيَّةً، فَرَفَعَ إِلَيْهِ رَأْسَهُ، قَالَ: وَمَا رَفَعَ إِلَيْهِ رَأْسَهُ إِلَّا أَنَّهُ كَانَ قَائِمًا، فَقَالَ:" مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
ہم سے عثمان نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے منصور کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابووائل سے روایت کرتے ہیں، وہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ کی راہ میں لڑائی کی کیا صورت ہے؟ کیونکہ ہم میں سے کوئی غصہ کی وجہ سے اور کوئی غیرت کی وجہ سے جنگ کرتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سر اٹھایا، اور سر اسی لیے اٹھایا کہ پوچھنے والا کھڑا ہوا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اللہ کے کلمے کو سربلند کرنے کے لیے لڑے، وہ اللہ کی راہ میں (لڑتا) ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 123  
´کھڑے کھڑے علم حاصل کرنا`
«. . . عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الْقِتَالُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ فَإِنَّ أَحَدَنَا يُقَاتِلُ غَضَبًا وَيُقَاتِلُ حَمِيَّةً، فَرَفَعَ إِلَيْهِ رَأْسَهُ، قَالَ: وَمَا رَفَعَ إِلَيْهِ رَأْسَهُ إِلَّا أَنَّهُ كَانَ قَائِمًا، فَقَالَ: مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ . . .»
. . . ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ کی راہ میں لڑائی کی کیا صورت ہے؟ کیونکہ ہم میں سے کوئی غصہ کی وجہ سے اور کوئی غیرت کی وجہ سے جنگ کرتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سر اٹھایا، اور سر اسی لیے اٹھایا کہ پوچھنے والا کھڑا ہوا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اللہ کے کلمے کو سربلند کرنے کے لیے لڑے، وہ اللہ کی راہ میں (لڑتا) ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ مَنْ سَأَلَ وَهْوَ قَائِمٌ عَالِمًا جَالِسًا: 123]

تشریح:
یعنی جب مسلمان اللہ کے دشمنوں سے لڑنے کے لئے میدان جنگ میں پہنچتا ہے اور غصہ کے ساتھ یا غیرت کے ساتھ جوش میں آ کر لڑتا ہے تو یہ سب اللہ ہی کے لیے سمجھا جائے گا۔ چونکہ یہ سوال آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کھڑے ہوئے شخص نے کیا تھا، اسی سے مقصد ترجمہ ثابت ہوا کہ حسب موقع کھڑے کھڑے بھی علم حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اللہ کے کلمہ کو سربلند کرنے سے قوانین اسلامیہ و حدود شرعیہ کا جاری کرنا مراد ہے جو سراسر عدل و انصاف و بنی نوع انسان کی خیر خواہی پر مبنی ہیں، ان کے برعکس جملہ قوانین نوع انسان کی فلاح کے خلاف ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 123   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3126  
´اگر کوئی غنیمت حاصل کرنے کے لیے لڑے مگر نیت ترقی دین کی بھی ہو تو کیا ثواب کم ہو گا؟`
«. . . حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ أَعْرَابِيٌّ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لرَّجُلُ يُقَاتِلُ لِلْمَغْنَمِ، وَالرَّجُلُ يُقَاتِلُ لِيُذْكَرَ، وَيُقَاتِلُ لِيُرَى مَكَانُهُ مَنْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ:" مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ . . .»
. . . ‏‏‏‏ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک اعرابی (لاحق بن ضمیرہ باہلی) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ایک شخص ہے جو غنیمت حاصل کرنے کے لیے جہاد میں شریک ہوا ‘ ایک شخص ہے جو اس لیے شرکت کرتا ہے کہ اس کی بہادری کے چرچے زبانوں پر آ جائیں ‘ ایک شخص اس لیے لڑتا ہے کہ اس کی دھاک بیٹھ جائے ‘ تو ان میں سے اللہ کے راستے میں کون سا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص جنگ میں شرکت اس لیے کرے تاکہ اللہ کا کلمہ (دین) ہی بلند رہے۔ فقط وہی اللہ کے راستے میں ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ: 3126]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 3126 باب: «بَابُ مَنْ قَاتَلَ لِلْمَغْنَمِ هَلْ يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِهِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ مسئلہ ثابت فرمایا کہ اگر کوئی اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے لڑے اور اس کے ذیل میں غنیمت کے مال لوٹنے کا بھی قصد ہو تو اس کا اجر کم نہ کیا جائے گا، دلیل کے طور پر حدیث یہ ثابت فرمائی کہ اگر کوئی غنیمت کے لئے یا نام و نمود کے لئے لڑتا ہے تو وہ اللہ کی راہ میں لڑنے والا نہیں ہے بلکہ اصلا لڑنے والا وہ ہے جو اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے لڑے، ترجمۃ الباب کے ساتھ حدیث کا کیا تعلق ہے اور اس میں کیا نسبت ہے؟ دراصل حدیث میں یہ ذکر ہے کہ جو صرف مال غنیمت ہی کے لئے لڑے، صرف نام و نمود ہی کی غرض سے جہاد کرے اس کا عمل ضائع ہو گا، لیکن اگر کسی کا مقصد اصلا اعلائے کلمۃ اللہ ہی ہو اور ضمنا غنیمت کا بھی قصد ہو تو کوئی مضر نہیں ہے۔
ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«أراد البخاري أن قصد الغنيمة لا يكون منافيا للأجر و لا منقصا إذا قصد معها أعلاء كلمة الله.» [فتح الباري، ج 6، ص: 278]
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ قصد ہے کہ مال غنیمت کی تمنا کرنا اجر کے منافی نہیں ہے اور نہ ہی اجر میں کمی کا باعث ہے جبکہ اس کے ساتھ (اصل مقصد) اعلائے کلمۃ اللہ کی بلندی ہو۔
علامہ محمد التاودی المالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«أما من قاتل للغنيمة فقط، أو كان أصل قتاله ذالك، فلا أجر له ولا أن قاتله فى سبيل الله.» [حاشية التأودي بن سودة، ج 3، ص: 280]
یعنی جو صرف غنیمت کے لئے ہی (لڑتا ہے) تو اس کا اصل قتال کرنا اسی کے لئے ہے، پس اس کے لئے کوئی اجر نہیں اور نہ ہی وہ اللہ کے رستے میں لڑنے والا شمار ہو گا۔
امام ابوداؤد رحمہ اللہ اپنی سنن میں حدیث کا ذکر کرتے ہیں اور اس پر باب قائم کرتے ہیں کہ:
«في الرجل يغزو يلتمس الأجر و الغنيمة.»
کوئی شخص جہاد کرے ثواب اور غنیمت کے لئے۔
مسئلے کو ثابت کرنے کے لئے امام ابوداؤد رحمہ اللہ حدیث پیش کرتے ہیں:
«إن ابن زغب الايادي حدثه قال: نزل على عبدالله بن حوالة الأزدي فقال لي: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم لنغنم على اقدامنا فرجعنا، فلم نغنم شيئا وعرف الجهد في وجوهنا فقام فينا فقال: اللهم لا تكلهم إلي فاضعف عنهم . . .» [سنن أبى داؤد، كتاب الجهاد، رقم الحديث: 2535]
سیدنا عبداللہ بن حوالہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پیدل (جہاد کے لئے) روانہ فرمایا تاکہ کوئی غنیمت حاصل کر لائیں۔ پس ہم واپس آئے اور ہمیں کوئی غنیمت میسر نہ آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشقت اور غمی کے آثار ہمارے چہروں پر دیکھے تو کھڑتے ہوئے اور (دعا کرتے ہوئے) فرمایا: اے اللہ! انہیں میرے سپرد نہ کر کہ ان کی کفالت سے عاجز رہوں، اور انہیں ان کی اپنی جانوں کے سپرد نہ کر کہ اپنی کفالت سے عاجز رہیں، اور نہ انہیں لوگوں کے سپرد کر دینا کہ وہ اپنے آپ ہی کو ترجیح دینے لگیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ مبارک میرے سر پر رکھا اور ارشاد مبارک فرمایا: اے ابن حوالہ! جب تم دیکھو کہ خلافت ارض مقدس (شام) تک پہنچ گئی ہے تو زلزلے آنے لگیں گے، مصیبتیں ٹوٹیں گیں اور بھی بڑی بڑی علامتیں ظاہر ہوں گی اور قیامت اس وقت لوگوں کے اس سے زیادہ قریب ہو گی جتنا کہ میرا ہاتھ تمہارے سر پر ہے۔
مذکورہ حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ کوئی شخص اگر اعلائے کلمۃ اللہ کے ساتھ ساتھ مال غنیمت کا بھی ارادہ رکھتا ہو تو اس کے لئے کوئی مضر نہ ہو گا، ہاں البتہ اتنا ضرور ہے کہ غنیمت حاصل ہونے سے آخرت کے اجر میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے:
جو مجاہد اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے نکلتے ہیں اور غنیمت حاصل کر لیتے ہیں وہ اپنے آخرت کے اجر میں سے دو تہائی جلد (اس دنیا میں) پا لیتے ہیں اور ایک تہائی ان کے لئے باقی رہ جاتا ہے، اور اگر انہیں کوئی غنیمت نہ ملے تو ان کا کامل اجر (روز قیامت کے لئے) محفوظ کر دیا جاتا ہے۔ [سنن أبى داؤد، كتاب الجهاد، رقم: 2497 - صحيح مسلم، كتاب الامارة، رقم: 1906]
اس گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا رحجان، کہ مال غنیمت کے لئے بھی لڑنے والا اگر اس کی اصل نیت اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے ہو گی تو اس کو مضر نہیں، ورنہ اگر صرف مال غنیمت ہی کے لئے وہ لڑے گا تو بلاشبہ اس کا کوئی اجر نہیں، نہ دنیا میں نہ آخرت میں۔ لہذا ترجمۃ الباب کے مطابق اجر اس کو ملے گا جس کی نیت اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے ہو گی، ہاں البتہ نسبی کمی واقع ضرور ہو گی جس کا ذکر حدیث میں بھی موجود ہے، اور اس کا ذکر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی فرمایا ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 459   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2783  
´جہاد کی نیت کا بیان۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو بہادری کی شہرت کے لیے لڑتا ہے، اور جو خاندانی عزت کی خاطر لڑتا ہے، اور جس کا مقصد ریا و نمود ہوتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے کلمے کی بلندی کے مقصد سے جو لڑتا ہے وہی مجاہد فی سبیل اللہ ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2783]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ہر نیکی کے کام میں اخلاص ضروری ہے ورنہ وہ عمل قابل قبول نہیں ہوگا۔

(2)
بظاہر بہت بڑی نیکی بھی خلوص کے بغیر بےکار ہے۔

(3)
جہاد کے دوران میں مومن کی نیت صرف اللہ کی رضا کا حصول اور اس کے دین کی خدمت ہونی چاہیے اس کے ساتھ اگر مال غنیمت مل جائے یا مسلمانوں کی نظر میں اس کا مقام بلند ہو جائے تو یہ اللہ کی طرف سے ایک انعام ہے۔
پہلے سے ان چیزوں کی نیت ہو تو ثواب نہیں ملے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2783   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:123  
123. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور پوچھنے لگا: یا رسول اللہ! اللہ کی راہ میں لڑنا کسے کہتے ہیں؟ کیونکہ ہم میں سے کوئی غصے کی وجہ سے لڑتا ہے اور کوئی حمیت کے سبب جنگ کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف اپنا سر مبارک اٹھایا۔ ابو موسیٰ کہتے ہیں: آپ نے اپنا سر مبارک اس لیے اٹھایا تھا کہ وہ کھڑا تھا۔ پھر آپ نے فرمایا: جو شخص اس لیے لڑے کہ اللہ کا بول بالا ہو تو ایسی لڑائی اللہ عزوجل کی راہ میں ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:123]
حدیث حاشیہ:

حدیث میں ہے کہ جو شخص اپنے لیے اس بات کو پسند کرتا ہے کہ لوگ اس کے لیے تعظیماً کھڑے ہوں تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔
(جامع الترمذي، الأدب، حدیث: 2755)
نیز آپ نے فرمایا کہ عجمیوں کی طرح مت کھڑے ہوا کرو، کیونکہ وہ تعظیم کی خاطر ایک دوسرے کے لیے کھڑےہوتے ہیں۔
(مسند احمد: 253/5)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر بیٹھے ہوئے عالم سے کوئی شخص کھڑے کھڑے سوال کرتا ہے تو وہ احادیث مذکورہ کے عموم میں داخل نہیں بشرطیکہ خود پسندی اور تکبر کی بنا پر ایسا نہ ہو۔
ہاں اگر عالم دین سائل کو بیٹھنے کی اجازت نہ دے اور وہ چاہے کہ سائل کھڑا ہی رہے ایسا کرنے سے اس کے جذبات کو تسکین ہوتی ہو تو ایسا کرنا درست نہیں لیکن اگر سائل خود بیٹھنے کا ارادہ نہیں رکھتا بلکہ وہ جلدی کے پیش نظر فوراً جانا چاہتا ہے تو وہ اس وعید کے تحت نہیں آتا جو احادیث میں مذکور ہے۔
(فتح الباري: 292/1)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے گزشتہ ایک باب بایں الفاظ قائم کیا تھا امام یا محدث کے آگے دوزانو بیٹھنا جس کا مفہوم یہ ہے کہ سوال یا تحصیل علم کے لیے اطمینان کی نشست اختیار کرنی چاہیے اس عنوان کے پیش نظر گمان ہو سکتا تھا کہ شاید کھڑے ہو کر سوال کرنا درست نہ ہو، آپ نے مذکورہ حدیث سے کھڑے ہو کر سوال کرنے کا جواز ثابت فرما دیا۔
اس جواز کی بنیاد راوی کا یہ کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اس لیے اٹھایا تھا کہ سائل کھڑا تھا، بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں یہ وضاحت کرنے والے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، جنھوں نے اپنا مشاہدہ نقل کیا ہے۔
اگر کوئی اور راوی ہے تو بھی استدلال صحیح ہے کیونکہ اس نے مشاہدے کی بنا پر ایسا کہا ہے۔

اس حدیث میں لڑائی کے محرکات کا ذکر ہے۔
مختلف روایات سے پتہ چلتا ہے کہ محرکات مندرجہ ذیل ہو سکتے ہیں۔
(1)
اعلائے کلمۃ اللہ، انتقامی جذبہ، قومی عصبیت۔
یہ تو اسی حدیث سے معلوم ہوتے ہیں، نیز حصول مال و دولت، شہرت و ناموری اور شجاعت و بہادری بھی لڑائی کا سبب ہوتے ہیں۔
(صحیح البخاري، الجهاد و السیر، حدیث: 2810)
اس کے علاوہ ہوس، ملک گیری اور قیمتی وسائل پر قبضہ جمانا بھی ہو سکتا ہے۔
ان سب میں قتال فی سبیل اللہ وہ ہو گا۔
جس کے پیش نظر صرف اعلائے کلمۃ اللہ اور غلبہ دین اسلام ہو۔
امام صاحب نے اس حدیث پر کئی ایک عنوان قائم کیے ہیں جو ان کی ذکاوت فہم اور قوت استنباط پر دلالت کرتے ہیں مثلاً:
کتاب الجہاد میں ایک عنوان بایں الفاظ ہے:
جو اس لیے لڑتا ہے تاکہ اللہ کا بول بالا ہو۔
ایک دوسرا عنوان یوں قائم کیا:
جو حصول غنیمت کے لیے لڑائی کرتا ہے کیا اس سے اجر کم ہو جائے گا؟ کتاب التوحید میں کلمۃ اللہ کی تفسیر میں اس حدیث کو پیش کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ عنوان بندی کے وقت ذخیرہ احادیث پر بھی نظر رکھتے ہیں اور مسائل واحکام کی نزاکتوں کا پورا پو را خیال رکھتے ہیں۔
لیکن بعض لوگوں کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی وسعت نظر اور دقت نظر سے حسد و بغض ہے، اس لیے انھیں جب موقع ملتا ہے تو وہ برملا اظہار کرتے ہیں، چنانچہ امین احسن اصلاحی نے کہا ہے۔
امام صاحب نے اتنی اہم روایت کو ایک بے معنی باب سے ڈھانک دیا ہے۔
(تدبر حدیث: 223/1)
اسے کہتے ہیں:
اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 123