صحيح مسلم
كِتَاب الْقَدَرِ -- تقدیر کا بیان
1. باب كَيْفِيَّةِ الْخَلْقِ الآدَمِيِّ فِي بَطْنِ أُمِّهِ وَكِتَابَةِ رِزْقِهِ وَأَجَلِهِ وَعَمَلِهِ وَشَقَاوَتِهِ وَسَعَادَتِهِ:
باب: انسان کا اپنی ماں کے پیٹ میں تخلیق کی کیفیت اور اس کے رزق، عمر، عمل، شقاوت و سعادت لکھے جانے کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 6735
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ . ح وحَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: جَاءَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَيِّنْ لَنَا دِينَنَا كَأَنَّا خُلِقْنَا الْآنَ، فِيمَا الْعَمَلُ الْيَوْمَ؟ أَفِيمَا جَفَّتْ بِهِ الْأَقْلَامُ وَجَرَتْ بِهِ الْمَقَادِيرُ؟ أَمْ فِيمَا نَسْتَقْبِلُ؟ قَالَ: لَا، بَلْ فِيمَا جَفَّتْ بِهِ الْأَقْلَامُ وَجَرَتْ بِهِ الْمَقَادِيرُ، قَالَ: فَفِيمَ الْعَمَلُ، قَالَ زُهَيْرٌ: ثُمَّ تَكَلَّمَ أَبُو الزُّبَيْرِ بِشَيْءٍ لَمْ أَفْهَمْهُ، فَسَأَلْتُ مَا قَالَ؟ فَقَالَ: اعْمَلُوا، فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ ".
ابوخیثمہ زہیر (بن حرب) نے ابوزبیر سے، انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: حضرت سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ آئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ ہمارے لیے دین کو اس طرح بیان کیجئے، گویا ہم ابھی پیدا کیے گئے ہیں، آج کا عمل (جو ہم کر رہے ہیں) کس نوع میں آتا ہے؟ کیا اس میں جسے (لکھنے والی) قلمیں (لکھ کر) خشک ہو چکیں اور جو پیمارنے مقرر کیے گئے ہیں ان کا سلسلہ جاری ہو چکا ہے (ہم بس انہی کے مطابق عمل کیے جا رہے ہیں؟) یا اس میں جو ہم از سر نو کر رہے ہیں (پہلے سے ان کے بارے میں کچھ طے نہیں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، بلکہ جسے لکھنے والی قلمیں (لکھ کر) خشک ہو چکیں اور جن کے مقرر شدہ پیمانوں کے مطابق عمل شروع ہو چکا۔" انہوں نے کہا: تو پھر عمل کس لیے (کیا جائے؟) زہیر نے کہا: پھر اس کے بعد ابوزبیر نے کوئی بات کی جو میں نہیں سمجھ سکا، تو میں نے پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا؟ انہوں نے کہا: (آپ نے فرمایا:) "تم عمل کرو، ہر ایک کو سہولت میسر کی گئی ہے۔"
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےروایت ہے کہ حضرت سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آکر دریافت کیا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے لیے ہمارا دین (دستور زندگی)اس طرح بیان فرمائیں گویا ہم ابھی پیدا ہوئے ہیں (ہمیں کسی چیز کا پتہ نہیں)آج کل جو ہم کر رہے اس کی کیا صورت ہے؟ کیا یہ ان چیزوں میں سے ہے جسے قلم لکھ کر خشک ہو چکے ہیں اور تقدیر طے ہو چکی ہے یا ہم نئے سرے سے کر رہے ہیں (تقدیر کا دخل نہیں ہے) آپ نے فرمایا:"نہیں بلکہ ان امور میں سے ہے جو قلم لکھ کر خشک ہو چکے ہیں اور تقدیر (فیصلہ) طے ہو چکا ہے۔"انھوں نے عرض کیا:تو پھر عمل کی کیا حیثیت؟ زہیر کہتے ہیں، پھر ابو زبیر نے کوئی بات کہی جو میں سمجھ نہ سکا تو میں نے پوچھا کیا کہا؟ انھوں نے کہا،آپ نے فرمایا:"عمل کرتے رہو ہر ایک کے لیے آسان کردئیے جائیں گے۔"