صحيح مسلم
كِتَاب الْقَدَرِ -- تقدیر کا بیان
7. باب بَيَانِ أَنَّ الآجَالَ وَالأَرْزَاقَ وَغَيْرَهَا لاَ تَزِيدُ وَلاَ تَنْقُصُ عَمَّا سَبَقَ بِهِ الْقَدَرُ:
باب: عمر اور روزی اور رزق تقدیر سے زیادہ نہ بڑھتی ہے نہ گھٹتی ہے۔
حدیث نمبر: 6771
حَدَّثَنَاه أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ بِشْرٍ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِهِ، عَنْ ابْنِ بِشْرٍ، وَوَكِيعٍ، جميعا من عذاب في النار وعذاب في القبر.
ابن بشر نے مسعر سے اسی سند کے ساتھ خبر دی، مگر ابن بشر اور وکیع دونوں سے ان کی (روایت کردہ) حدیث میں یہ الفاظ منقول ہیں: "آگ میں دیے جانے والے اور قبر میں دیے جانے والے عذاب سے (پناہ مانگتی تو بہتر تھا۔) " ("یا" کی بجائے "اور" ہے۔)
امام صاحب یہی روایت ابو کریب سے بیان کرتے ہیں، اس میں او(یا) کی جگہ واؤ ہےکہ"آگ کے عذاب سے اور قبر کے عذاب سے۔"
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6771  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
عمر اور رزق طے ہیں،
اس طرح دوزخ یا قبر کا عذاب مقرر ہے،
یہ سب چیزیں اللہ کو پہلے سے معلوم ہیں،
لیکن یہ بھی طے ہے کہ ان اسباب کی بنا پر اس کی عمر کم یا رزق کم ہو گا یا زیادہ،
عمر اور رزق میں صلہ رحمی سے اضافہ ہوتا ہے اور دعا سے بھی اضافہ ہوتا ہے اور یہ بھی پہلے سے اللہ کے علم میں ہے کہ فلاں صلہ رحمی کرے گا،
یا اس کے لیے طویل عمر کی دعا ہو گی اور اس کے مطابق اس کی عمر اور رزق میں اضافہ پہلے سے لکھا جا چکا ہے،
جس طرح صلہ رحمی اور دعا لکھی جا چکی ہے،
اس لیے نئے سرے سے اس کا اثر مرتب نہیں ہوتا اور ان میں کمی و بیشی نہیں ہوتی،
کمی و بیشی تقدیر میں ہو چکی ہے،
اس لیے آپ کا یہ مقصد نہیں تھا،
آپ ان کی یا اپنی عمر میں اضافہ کی دعا نہ کریں،
بلکہ یہ مقصد تھا،
عمر اور رزق کا تعلق دنیا سے ہے اور آگ یا قبر کے عذاب کا تعلق آخرت سے ہے اور آخرت دنیا کے مقابلہ میں خیر اور افضل ہے،
اس لیے اس کے لیے دعا کرنا بھی افضل ہے،
نیز جب منفعت کے مقابلہ میں دفع مضرت زیادہ اہم ہے،
اس لیے عمر اور رزق میں اضافہ کے مقابلہ میں،
آگ اور قبر کے عذاب سے پناہ مانگنا زیادہ افضل ہے اور آپ نے حضرت انس کے لیے طویل عمر کی دعا فرمائی تھی،
امام بخاری کی الادب المفرد میں ہے،
اللهم اكثر ماله،
وَوَلده واطل حياته اور امام بخاری نے،
بخاری شریف میں باب باندھا ہے:
" باب دعوة النبی صلی الله عليه وسلم لخادمه بطول عمره بكثرة ماله " (فتح الباری،
ج 11 ص 173،
مکتبہ دارالسلام الریاض)

اس طرح آپ نے عمر اور رزق دونوں میں کثرت اور اضافہ کی دعا فرمائی ہے،
جس سے ثابت ہوا کہ عمر میں اور رزق میں اضافہ کی دعا جائز ہے اور یہ بھی پہلے ہی سے لکھا جا چکا ہے،
اس لیے تقدیر کو مبرم اور معلق دو قسموں میں بانٹنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
(2)
بندر اور خنزیر مستقل حیوانات ہیں،
یہ ممسوخ (مسخ شدہ)
انسانوں کی نسل یا اولاد نہیں ہیں،
کیونکہ بنو اسرائیل کے بعد لوگوں کو بندر اور خنزیر بنانے سے پہلے بھی تو بندر اور خنزیر موجود تھے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6771