صحيح مسلم
كِتَاب الْعِلْمِ -- علم کا بیان
5. باب رَفْعِ الْعِلْمِ وَقَبْضِهِ وَظُهُورِ الْجَهْلِ وَالْفِتَنِ فِي آخِرِ الزَّمَانِ:
باب: آخر زمانہ میں علم کی کمی ہونا۔
حدیث نمبر: 6792
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَتَقَارَبُ الزَّمَانُ وَيُقْبَضُ الْعِلْمُ، وَتَظْهَرُ الْفِتَنُ، وَيُلْقَى الشُّحُّ، وَيَكْثُرُ الْهَرْجُ "، قَالُوا: وَمَا الْهَرْجُ؟ قَالَ: الْقَتْلُ ".
یونس نے ابن شہاب سے روایت کی، انہوں نے کہا: مجھے حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف نے حدیث بیان کی کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "زمانہ باہم قریب ہو جائے گا (وقت بہت تیزی سے گزرتا ہوا محسوس ہو گا)، علم اٹھا لیا جائے گا، فتنے نمودار ہوں گے، (دلوں میں) بخل اور حرص ڈال دیا جائے گا اور ہرج کثرت سے ہو گا۔" صحابہ نے پوچھا: ہرج کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قتل و غارت گری۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"زمانہ قریب ہو جائے گا، علم قبض کر لیا جائے گا۔ فتنے ظاہر ہوں گے،دلوں میں حرص و لالچ ڈال دی جائے گی اور قتل بکثرت ہوں گے، صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے پوچھا "هَرَج" کسے کہتے ہیں، فرمایا قتل کو۔"
  الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 1  
´علم کا قبض کر لیا جانا، فتنوں کا ظہور`
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علم قبض کر لیا جائے گا، فتنے ظاہر ہوں گئے اور ہرج بہت ہو جائے گا . . . [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب العلم/حدیث: 1]
فوائد:
مذکورہ حدیث میں قیامت کی چند نشانیوں کا تذکرہ ہے۔
➊۔۔۔ علم قبض کر لیا جائے گا جیسا کہ دوسری حدیث سے ثابت ہے کہ علماء کے ختم ہونے سے علم ختم ہو جائے گا۔ دیکھئے: [حديث: 318]
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے فرماتے ہیں:
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ لوگوں سے چھین کر علم کو قبض نہیں کرتا، بلکہ علماء کو فوت کر کے علم کو اٹھاتا ہے حتیٰ کہ (قریب قیامت) کوئی بھی عالم نہیں بچے گا۔ یہاں تک کہ لوگ جہلاء کو علماء سمجھیں گے جو بغیر علم کے فتوے دیں گے۔ وہ خود گمراہ ہوں گے۔ اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ [مسلم، كتاب العلم، رقم؛6796]
➋۔۔۔ فتنے ظاہر ہوں گے، فتنے سے مراد ہر ایک آزمائش ہے۔
دینی ہو یا دنیاوی، بعض اوقات بیوی، بچے بھی فتنہ بن جاتے ہیں۔
اور اللہ ذوالجلال نے ان کے فتنے سے بچنے کی تلقین کی ہے۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ» [64-التغابن: 15]
بلاشبہ تمہاری دولت اور تمہاری اولاد ایک آزمائش ہے۔
کبھی فتنہ عذاب کے معنی میں آتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«ذوقوا فتنتكم۔۔۔»
اس آیت مبارکہ میں فتنے سے مراد گناہ ہے جس کی سزا عام ہوتی ہے۔ مثلاً بری بات دیکھ کر خاموش رہنا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں سستی، پھوٹ و نا اتفاقی، بدعت کا پھیلنا اور جہاد میں سستی وغیرہ۔
معلوم ہوا علامات قیامت میں سے قتل کی کثرت بھی ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھوں میں میری جان ہے، یہ دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہو گی۔ جب تک لوگوں پر یہ دن نہ آ جائے کہ قاتل کو پتہ نہ ہو کہ اس نے کیوں قتل کیا ہے؟ اور مقتول کو بھی پتہ نہ ہو کہ اسے کیوں قتل کیا گیا ہے؟ [مسلم، رقم؛ 2908]
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4047  
´قیامت کی نشانیوں کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی، جب تک مال کی خوب فراوانی نہ ہو جائے، اور فتنہ عام نہ ہو جائے «هرج» کثرت سے ہونے لگے، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! «هرج» کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا: قتل، قتل، قتل۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4047]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مال کی کثرت امن وسکون کا باعث نہیں جب کہ ایمان وتقوی نہ ہو۔

(2)
فتنوں سے مراد مختلف قسم کے تعصبات بھی ہوسکتے ہیں جو قتل وغارت کا باعث بنتے ہیں اور ایسی چیزیں بھی جو ایمان کے لیے خطرے کا باعث ہیں۔
خصوصاً جب کہ لوگ دین کے علم سے بھی محروم ہوں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4047   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6792  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
الشح:
حرص،
لالچ،
هرج:
عربی زبان میں اختلاط،
دنگا فساد کو کہتے ہیں،
جس کا نتیجہ کشت و خون نکلتا ہے اور حبشی زبان میں قتل و خون کو کہتے ہیں۔
يتقارب الزمان:
اس کے مختلف معانی اور مطالب بیان کئے گئے۔

حدیث میں بیان کردہ امور کا ظہور اور کثرت،
قیامت کے قریب ہو گی،
کیونکہ یہ علامات قیامت میں سے ہیں۔

لوگوں کے احوال و اخلاق اور عادات و کردار ملتے جلتے ہوں گے،
دین سے دور ہو چکے ہوں گے۔

جہالت اور لاعلمی میں ملتے جلتے ہوں گے،
علم میں تو مراتب مختلف ہوتے ہیں،
اس لیے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے والے نہیں رہیں گے اور فسق و فجور کا غلبہ ہو گا۔

زمانہ یعنی وقت میں سے برکت اٹھ جائے گی،
اس لیے وہ بڑی تیزی اور برق رفتاری سے گزرے گا،
جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی جامع ترمذی میں روایت ہے،
سال،
مہینہ کے برابر ہو گا اور ماہ،
ہفتہ کے برابر ہو گا،
ہفتہ،
ایک دن کے برابر ہو گا،
دن،
ایک گھڑی کی طرح ہو گا اور ایک گھڑی،
لکڑی جلنے کے بقدر،
قاضی عیاض رحمہ اللہ کے نزدیک یہ بے برکتی کی وجہ سے ہے اور امام خطابی کے نزدیک عیش و عشرت کی فراوانی کی بنا پر۔

امام بیضاوی کے نزدیک حکومتیں جلد،
جلد گرنے لگیں گی اور لوگوں کی عمریں کم ہوں گی۔

اور بقول امام ابن ابی جمرہ،
قوت کارکردگی کم ہو جائے گی،
لوگ پہلوں کی طرح زیادہ سے زیادہ کام نہیں کر سکیں گے،
لیکن علت اور سبب کا پتہ نہیں چل سکے گا۔
ممکن ہے یہ ضعف ایمان اور شریعت کی مخالفت کا نتیجہ ہو۔
تظهر الفتن:
قلت علم اور فسق و فجور کی کثرت کی بنا پر دنگا اور فساد عام ہو گا اور فتنے بڑھ جائیں گے اور يلقي الشح،
حقوق ادا کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہو گا اور قبضہ گروپ عام ہوں گے،
جو دوسروں کے مال و دولت اور اشیاء پر قبضہ کرنا چاہیں گے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6792