صحيح مسلم
كِتَاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ -- ذکر الہی، دعا، توبہ، اور استغفار
1. باب الْحَثِّ عَلَى ذِكْرِ اللَّهِ تَعَالَى:
باب: جو شخص اچھی بات جاری کرے یا بری بات جاری کرے۔
حدیث نمبر: 6807
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ قَالَ: " إِذَا تَلَقَّانِي عَبْدِي بِشِبْرٍ تَلَقَّيْتُهُ بِذِرَاعٍ، وَإِذَا تَلَقَّانِي بِذِرَاعٍ تَلَقَّيْتُهُ بِبَاعٍ، وَإِذَا تَلَقَّانِي بِبَاعٍ أَتَيْتُهُ بِأَسْرَعَ ".
) ہمیں معمر نے ہمام بن منبہ سے حدیث بیان کی، کہا: یہ احادیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیں، پھر انہوں نے متعدد احادیث بیان کیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: "اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "جب بندہ ایک بالشت (بڑھ کر) میرے پاس آتا ہے تو میں ایک ہاتھ (بڑھ کر) اس کے پاس جاتا ہوں اور جب وہ ایک ہاتھ (بڑھ کر) میرے پاس آتا ہے تو میں دونوں ہاتھوں کی لمبائی کے برابر (بڑھ کر) اس کے پاس جاتا ہوں اور اگر وہ دونوں ہاتھوں کی لمبائی کے برابر بڑھ کر میرے پاس آتا ہے تو میں اس کے پاس پہنچ جاتا ہوں، اس سے زیادہ تیزی سے آتا ہوں۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمام بن منبہ رحمۃ اللہ علیہ کو بہت سی احادیث سنائیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، جب میرا بندہ میری طرف ایک بالشت بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف دو بالشت (ایک ہاتھ) بڑھتا ہوں اور جب وہ میری طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف چار ہاتھ بڑھتا ہوں اور جب وہ میری طرف دو ہاتھ بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف اس سے زیادہ تیزی سے بڑھ کر آتاہوں۔"
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3822  
´عمل کی فضیلت۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں، جیسا وہ گمان مجھ سے رکھے، اور میں اس کے ساتھ ہوں جب وہ میرا ذکر کرتا ہے، اگر وہ میرا دل میں ذکر کرتا ہے تو میں بھی دل میں اس کا ذکر کرتا ہوں، اور اگر وہ میرا ذکر لوگوں میں کرتا ہے تو میں ان لوگوں سے بہتر لوگوں میں اس کا ذکر کرتا ہوں، اور اگر وہ مجھ سے ایک بالشت نزدیک ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں، اور اگر وہ چل کر میرے پاس آتا ہے تو میں اس کی جانب دوڑ کر آتا ہوں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3822]
اردو حاشہ:
فوائد و  مسائل:

(1)
اللہ تعالیٰ سے حسن ظن رکھنا چا ہیے۔
حسن ظن کا صحیح طریقہ یہ ہےکہ نیک اعمال کیے جائیں اور ان کی قبولیت کی امید رکھی جائے۔
گناہوں سے توبہ کی جائے اور بخشش کی امید رکھی جائے۔
گناہوں کے راستے پر بھاگتے چلے جانا اور اللہ کی رحمت کی امید رکھنا نادانی ہے۔

(3)
اس میں بالواسطہ عمل کی تلقین ہے کیونکہ عمل کے بغیر کی امید نہیں رکھی جا سکتی، لہٰذا اچھے عمل کرنے والا ہی اللہ سے اچھی امید رکھ سکتا ہے۔
برے عمل کرنے والا بری امید ہی رکھ سکتا ہے۔

(4)
جماعت میں ذکر کرنے سے مراد خود ساختہ اجتماعی ذکر نہیں بلکہ یا تو یہ مراد ہے کہ جیسے نماز کے بعد سب لوگ اپنے اپنے طور پر مسنون دعائیں اور اذکار پڑھتے ہیں یا اللہ کی رحمتوں، نعمتوں اور اس کے احکام وغیرہ کا ذکر ہے، یعنی ایک شخص بیان کرے اور دوسرے سنتے رہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3822   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2388  
´اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں جیسا وہ گمان مجھ سے رکھے، اور میں اس کے ساتھ ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد/حدیث: 2388]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث میں اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھنے کی ترغیب ہے،
لیکن عمل کے بغیرکسی بھی چیز کی امید نہیں کی جاسکتی ہے،
گویا اللہ کا معاملہ بندوں کے ساتھ ان کے عمل کے مطابق ہوگا،
بندے کا عمل اگر اچھا ہے تو اس کے ساتھ اچھا معاملہ اوربرے عمل کی صورت میں اس کے ساتھ برامعاملہ ہوگا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2388   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6807  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث جئته اتيته بأسرع:
میں اس سے زیادہ تیز رفتاری سے بڑھ کر اس کے پاس آتا ہوں،
سے مذکورہ بالا حدیث کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ اصل مقصود،
اس کے عمل کی قبولیت اور اس کا اپنا قرب بخشنا ہے کہ میں اس کی نیکی و عبادت سے بڑھ کر اس پر اپنی رحمت کی بارش کرتا ہوں اور اپنی توفیق و اعانت سے سرفراز فرماتا ہوں،
کیونکہ اس کی عمومی معیت تو ہر انسان کو ہر وقت حاصل ہے اور اس حدیث میں تو خصوصی معیت مراد ہے،
جس کا مدار انسان کی نیک کرداری،
اطاعت و فرمانبرداری پر ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6807