صحيح مسلم
كِتَاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ -- ذکر الہی، دعا، توبہ، اور استغفار
6. باب فَضْلِ الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّقَرُّبِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى:
باب: اللہ تعالیٰ کی یاد اور قرب کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 6832
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ وَاللَّفْظُ لِأَبِي كُرَيْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي، وَأَنَا مَعَهُ حِينَ يَذْكُرُنِي، فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي، وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَإٍ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُ، وَإِنِ اقْتَرَبَ إِلَيَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا، وَإِنِ اقْتَرَبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا اقْتَرَبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا، وَإِنْ أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً ".
ابوصالح نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ عزوجل فرماتا ہے: میرا بندہ میرے بارے میں جو گمان کرتا ہے تو میں (اس کو پورا کرنے کے لیے) اس کے پاس ہوتا ہوں اور جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں، اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں۔ اگر وہ مجھے کسی مجلس میں یاد کرتا ہے تو میں ان لوگوں کی مجلس سے بہتر مجلس میں اس کو یاد کرتا ہوں اور اگر وہ ایک بالشت میرے قریب ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہو جاتا ہوں، اگر وہ ایک ہاتھ میرے قریب ہوتا ہے تو میں پھیلے ہوئے دونوں ہاتھوں کی لمبائی جتنا (فاصلہ) اس کے قریب ہو جاتا ہوں اور اگر وہ چل کر میری طرف آتا ہے تو میں دوڑ کر اس کے پاس آتا ہوں۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ عزوجل کا ارشاد ہے۔"میرا معاملہ میرے بندے کے ساتھ اس کے میرے بارے میں یقین کے مطابق ہے اور جب وہ مجھے یادکرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔"سو اگر وہ مجھے جی میں یاد کرتا ہے میں اس کو اپنے جی میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے دوسرے لوگوں کے سامنے مجلس میں یاد کرتا ہے (دعوت وارشاد کا اوروعظ نصیحت کا فریضہ سر انجام دیتا ہے) تو میں اسے ان سے بہتر مجلس میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ میرے ایک بالشت قریب ہوتا ہے، میں اس سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہوں اوراگروہ میرے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے، میں اس کےچار ہاتھ قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ میرےپاس چل کر آتا ہے۔میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔"
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3822  
´عمل کی فضیلت۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں، جیسا وہ گمان مجھ سے رکھے، اور میں اس کے ساتھ ہوں جب وہ میرا ذکر کرتا ہے، اگر وہ میرا دل میں ذکر کرتا ہے تو میں بھی دل میں اس کا ذکر کرتا ہوں، اور اگر وہ میرا ذکر لوگوں میں کرتا ہے تو میں ان لوگوں سے بہتر لوگوں میں اس کا ذکر کرتا ہوں، اور اگر وہ مجھ سے ایک بالشت نزدیک ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں، اور اگر وہ چل کر میرے پاس آتا ہے تو میں اس کی جانب دوڑ کر آتا ہوں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3822]
اردو حاشہ:
فوائد و  مسائل:

(1)
اللہ تعالیٰ سے حسن ظن رکھنا چا ہیے۔
حسن ظن کا صحیح طریقہ یہ ہےکہ نیک اعمال کیے جائیں اور ان کی قبولیت کی امید رکھی جائے۔
گناہوں سے توبہ کی جائے اور بخشش کی امید رکھی جائے۔
گناہوں کے راستے پر بھاگتے چلے جانا اور اللہ کی رحمت کی امید رکھنا نادانی ہے۔

(3)
اس میں بالواسطہ عمل کی تلقین ہے کیونکہ عمل کے بغیر کی امید نہیں رکھی جا سکتی، لہٰذا اچھے عمل کرنے والا ہی اللہ سے اچھی امید رکھ سکتا ہے۔
برے عمل کرنے والا بری امید ہی رکھ سکتا ہے۔

(4)
جماعت میں ذکر کرنے سے مراد خود ساختہ اجتماعی ذکر نہیں بلکہ یا تو یہ مراد ہے کہ جیسے نماز کے بعد سب لوگ اپنے اپنے طور پر مسنون دعائیں اور اذکار پڑھتے ہیں یا اللہ کی رحمتوں، نعمتوں اور اس کے احکام وغیرہ کا ذکر ہے، یعنی ایک شخص بیان کرے اور دوسرے سنتے رہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3822   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2388  
´اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں جیسا وہ گمان مجھ سے رکھے، اور میں اس کے ساتھ ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد/حدیث: 2388]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث میں اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھنے کی ترغیب ہے،
لیکن عمل کے بغیرکسی بھی چیز کی امید نہیں کی جاسکتی ہے،
گویا اللہ کا معاملہ بندوں کے ساتھ ان کے عمل کے مطابق ہوگا،
بندے کا عمل اگر اچھا ہے تو اس کے ساتھ اچھا معاملہ اوربرے عمل کی صورت میں اس کے ساتھ برامعاملہ ہوگا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2388