صحيح البخاري
كِتَاب الْجَنَائِزِ -- کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
61. بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنِ اتِّخَاذِ الْمَسَاجِدِ عَلَى الْقُبُورِ:
باب: قبروں پر مسجد بنانا مکروہ ہے۔
وَلَمَّا مَاتَ الْحَسَنُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ضَرَبَتِ امْرَأَتُهُ الْقُبَّةَ عَلَى قَبْرِهِ سَنَةً , ثُمَّ رُفِعَتْ فَسَمِعُوا صَائِحًا , يَقُولُ: أَلَا هَلْ وَجَدُوا مَا فَقَدُوا؟ فَأَجَابَهُ الْآخَرُ بَلْ يَئِسُوا فَانْقَلَبُوا.
‏‏‏‏ اور جب حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنہم فوت ہوئے تو ان کی بیوی (فاطمہ بنت حسین) نے ایک سال تک قبر پر خیمہ لگائے رکھا۔ آخر خیمہ اٹھایا گیا تو لوگوں نے ایک آواز سنی کیا ان لوگوں نے جن کو کھویا تھا ‘ ان کو پایا؟ دوسرے نے جواب دیا نہیں بلکہ ناامید ہو کر لوٹ گئے۔
  مولانا محمد ابوالقاسم سيف بنارسي حفظ الله، دفاع بخاري، تحت قبل الحديث 1330  
´قبروں پر مسجد بنانا مکروہ ہے`
«وَلَمَّا مَاتَ الْحَسَنُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ الله عَنْهُمْ ضَرَبَتِ امْرَأَتُهُ الْقُبَّةَ عَلَى قَبْرِهِ سَنَةً , ثُمَّ رُفِعَتْ فَسَمِعُوا صَائِحًا , يَقُولُ: أَلَا هَلْ وَجَدُوا مَا فَقَدُوا؟ فَأَجَابَهُ الْآخَرُ بَلْ يَئِسُوا فَانْقَلَبُوا.»
اور جب حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنہم فوت ہوئے تو ان کی بیوی (فاطمہ بنت حسین) نے ایک سال تک قبر پر خیمہ لگائے رکھا۔ آخر خیمہ اٹھایا گیا تو لوگوں نے ایک آواز سنی کیا ان لوگوں نے جن کو کھویا تھا ‘ ان کو پایا؟ دوسرے نے جواب دیا نہیں بلکہ ناامید ہو کر لوٹ گئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجَنَائِزِ: Q1330]

فقہ الحدیث
منکرین حدیث اس پر اعتراض کرتے ہیں:
پس دیکھئے کہ اس حدیث سے مسجد پر قبر بنانے کی کراہیت، جس کا باب میں دعویٰ کیا گیا ہے، مطلق ثابت نہیں ہوتی۔
{أقول:} اللہ اکبر! کس قدر دھوکہ دہی سے کام لیا گیا ہے؟ دعویٰ تو یہ کیا کہ باب اور حدیث میں مطابقت نہیں، اور پیش کیا باب اور ترجمہ باب!

اے جناب! حسن بن حسین کی وفات کا واقعہ کیا حدیث ہے؟ کیا امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کو «حدثنا» کے بعد ذکر کیا ہے؟
ہرگز نہیں، بلکہ حدیث تو اس کے بعد خود علیحدہ ہے کہ «لعن الله اليهود والنصارى اتخذوا قبور انبيائهم مسجدا» جس سے قبروں پر مسجد بنانے کی ممانعت صاف عیاں ہے، وفات حسن کا واقعہ تو ترجمہ باب میں ذکر کیا گیا ہے، نہ کہ وہ حدیث ہے، جسے آپ نے حدیث کر کے لکھا ہے، جس سے آپ کی حدیث دانی کا راز طشت ازبام ہو گیا۔

افسوس کہ جس کو حدیث کی تعریف معلوم نہ ہو اور یہ تمیز نہ کر سکے کہ حدیث کون سی ہے؟ وہ بھی اس میدان میں قدم مارنے کو آمادہ ہو؟ ہاں اگر یہ سوال کرتے کہ اس باب اور ترجمہ باب میں مطابقت نہیں ہے، تو کسی قدر قابل التفات ہوتا، اور ہم جواب دیتے کہ اس کے نیچے صاف لکھا ہے: یعنی وہ قبر پر قبہ نصب کر کے جب ایک سال تک مقیم رہی۔‏‏‏‏

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ومناسبة هذا الأثر لحديث الباب أن المقيم فى الفسطاط لا يخلو من الصلاة هناك، فيلزم اتخاذ المسجد عند القبر، وقد يكون القبر فى جهة القبلة، فتزداد الكراهة.»

نیز فرماتے ہیں:
«وإنما ذكره البخاري لموافقته للأدلة الشرعية، لا لأنه دليل برأسه.» [فتح الباري 200/3]
تو پنج وقتی نماز کے لیے خاص مصلٰی کے طور پر ضرور کوئی جگہ مقرر کی ہو گی، اور اس میں نماز ادا کرتی ہو گی، یہ نماز اس کی اس میں ناجائز ہوئی۔
افسوس کہ جس کتاب سے آپ اعتراض کرتے ہیں، اسی کے نیچے مطابقت بتلا دی گئی ہے۔
   دفاع صحیح بخاری، حدیث/صفحہ نمبر: 103   
حدیث نمبر: 1330
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ شَيْبَانَ، عَنْ هِلَالٍ هُوَ الْوَزَّانُ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ:" لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ، وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسْجِدًا"، قَالَتْ: وَلَوْلَا ذَلِكَ لَأَبْرَزُوا قَبْرَهُ غَيْرَ أَنِّي أَخْشَى أَنْ يُتَّخَذَ مَسْجِدًا.
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ ان سے شیبان نے ‘ ان سے ہلال وزان نے ‘ ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض وفات میں فرمایا کہ یہود اور نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنا لیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اگر ایسا ڈر نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کھلی رہتی (اور حجرہ میں نہ ہوتی) کیونکہ مجھے ڈر اس کا ہے کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر بھی مسجد نہ بنا لی جائے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1330  
1330. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے اپنی مرض وفات میں فرمایا:اللہ تعالیٰ یہودو نصاری پر لعنت کرے کہ انھوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:اگر یہ ڈر نہ ہوتا تو آپ کی قبر مبارک کو بالکل ظاہر کردیا جا تا مگر مجھے اندیشہ ہے کہ مبادا اسے بھی سجدہ گاہ بنا لیا جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1330]
حدیث حاشیہ:
یعنی خود قبروں کو پوجنے لگے یا قبروں پر مسجد اور گرجا بناکر وہاں خدا کی عبادت کرنے لگے۔
توباب کی مطابقت حاصل ہوگئی۔
امام ابن قیم نے کہا جو لوگ قبروں پر وقت معین میں جمع ہوتے ہیں وہ بھی گویا قبر کو مسجد بناتے ہیں۔
دوسری حدیث میں ہے میری قبر کو عید نہ کرلینا، یعنی عید کی طرح وہاں میلہ اور مجمع نہ کرنا۔
جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ بھی ان یہودیوں اور نصرانیوں کے پیرو ہیں جن پر آنحضرت ﷺ نے لعنت فرمائی۔
افسوس! ہمارے زمانے میں گور پرستی ایسی شائع ہورہی ہے کہ یہ نام کے مسلمان خدا اور رسول سے ذرا بھی نہیں شرماتے‘ قبروں کو اس قدر پختہ شاندار بناتے ہیں کہ ان کی عمارات کو دیکھ کر مساجد کا شبہ ہوتا ہے۔
حالانکہ آنحضرت ﷺ نے سختی کے ساتھ قبروں پر ایسی تعمیرات کے لیے منع فرمایا ہے۔
حضرت علی ؓ نے ابوہیاج اسدی کو کہا تھا:
أبعثك علی ما بعثني علیه رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم لا تدع تمثالا إلا طمسته ولا قبرا مشرفا إلاسویته۔
رواہ الجماعة إلا البخاري وابن ماجة۔
یعنی کیا میں تم کو اس خدمت کے لیے نہ بھیجوں جس کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا۔
وہ یہ کہ کوئی مورت ایسی نہ چھوڑ جسے تو مٹا نہ دے اور کوئی اونچی قبر نہ رہے جسے تو برابر نہ کردے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبروں کا حد سے زیادہ اونچا اور بلند کرنا بھی شارع کو ناپسند ہے۔
علامہ شوکانی ؒ فرماتے ہیں۔
فیه أن السنة أن القبر لا یرفع رفعا کثیرا من غیر فرق بین من کان فاضلا ومن کان غیر فاضل والظاهر أن رفع القبور زیادة علی القدر المأذون حرام۔
یعنی سنت یہی ہے کہ قبر کو حد شرعی سے زیادہ بلندنہ بنایا جائے خواہ وہ کسی فاضل عالم صوفی کی ہویا کسی غیر فاضل کی اور ظاہر ہے کہ شرعی اجازت سے زیادہ قبروں کو اونچا کرنا حرام ہے۔
آگے علامہ فرماتے ہیں:
وَمِنْ رَفْعِ الْقُبُورِ الدَّاخِلِ تَحْتَ الْحَدِيثِ دُخُولًا أَوَّلِيَّا الْقُبَبُ وَالْمَشَاهِدُ الْمَعْمُورَةُ عَلَى الْقُبُورِ، وَأَيْضًا هُوَ مِنْ اتِّخَاذِ الْقُبُورِ مَسَاجِدَ، وَقَدْ لَعَنَ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَاعِلَ ذَلِكَ كَمَا سَيَأْتِي، وَكَمْ قَدْ سَرَى عَنْ تَشْيِيدِ أَبْنِيَةِ الْقُبُورِ وَتَحْسِينِهَا مِنْ مَفَاسِدَ يَبْكِي لَهَا الْإِسْلَامُ، مِنْهَا اعْتِقَادُ الْجَهَلَةِ لَهَا كَاعْتِقَادِ الْكُفَّارِ لِلْأَصْنَامِ:
وَعَظُمَ ذَلِكَ فَظَنُّوا أَنَّهَا قَادِرَةٌ عَلَى جَلْبِ النَّفْعِ وَدَفْعِ الضَّرَرِ فَجَعَلُوهَا مَقْصِدًا لِطَلَبِ قَضَاءِ الْحَوَائِجِ وَمَلْجَأً لِنَجَاحِ الْمَطَالِبِ وَسَأَلُوا مِنْهَا مَا يَسْأَلُهُ الْعِبَادُ مِنْ رَبِّهِمْ، وَشَدُّوا إلَيْهَا الرِّحَالَ وَتَمَسَّحُوا بِهَا وَاسْتَغَاثُوا وَبِالْجُمْلَةِ إنَّهُمْ لَمْ يَدَعُوا شَيْئًا مِمَّا كَانَتْ الْجَاهِلِيَّةُ تَفْعَلُهُ بِالْأَصْنَامِ إلَّا فَعَلُوهُ، فَإِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إلَيْهِ رَاجِعُونَ. وَمَعَ هَذَا الْمُنْكَرِ الشَّنِيعِ وَالْكُفْرِ الْفَظِيعِ لَا تَجِدُ مَنْ يَغْضَبُ لِلَّهِ وَيَغَارُ حَمِيَّةً لِلدِّينِ الْحَنِيفِ لَا عَالِمًا وَلَا مُتَعَلِّمًا وَلَا أَمِيرًا وَلَا وَزِيرًا وَلَا مَلِكًا، وَقَدْ تَوَارَدَ إلَيْنَا مِنْ الْأَخْبَارِ مَا لَا يُشَكُّ مَعَهُ أَنَّ كَثِيرًا مِنْ هَؤُلَاءِ الْمَقْبُورِينَ أَوْ أَكْثَرِهِمْ إذَا تَوَجَّهَتْ عَلَيْهِ يَمِينٌ مِنْ جِهَةِ خَصْمِهِ حَلَفَ بِاَللَّهِ فَاجِرًا، فَإِذَا قِيلَ لَهُ بَعْدَ ذَلِكَ:
احْلِفْ بِشَيْخِك وَمُعْتَقَدِكَ الْوَلِيِّ الْفُلَانِيِّ تَلَعْثَمَ وَتَلَكَّأَ وَأَبَى وَاعْتَرَفَ بِالْحَقِّ. وَهَذَا مِنْ أَبْيَنِ الْأَدِلَّةِ الدَّالَّةِ عَلَى أَنَّ شِرْكَهُمْ قَدْ بَلَغَ فَوْقَ شِرْكِ مَنْ قَالَ:
إنَّهُ تَعَالَى ثَانِيَ اثْنَيْنِ أَوْ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ، فَيَا عُلَمَاءَ الدِّينِ وَيَا مُلُوكَ الْمُسْلِمِينَ، أَيُّ رُزْءٍ لِلْإِسْلَامِ أَشَدُّ مِنْ الْكُفْرِ، وَأَيُّ بَلَاءٍ لِهَذَا الدِّينِ أَضَرُّ عَلَيْهِ مِنْ عِبَادَةِ غَيْرِ اللَّهِ؟ وَأَيُّ مُصِيبَةٍ يُصَابُ بِهَا الْمُسْلِمُونَ تَعْدِلُ هَذِهِ الْمُصِيبَةَ؟ وَأَيُّ مُنْكَرٍ يَجِبُ إنْكَارُهُ إنْ لَمْ يَكُنْ إنْكَارُ هَذَا الشِّرْكِ الْبَيِّنِ وَاجِبًا:
لَقَدْ أَسْمَعْت لَوْ نَادَيْتَ حَيًّا ... وَلَكِنْ لَا حَيَاةَ لِمَنْ تُنَادِيوَلَوْ نَارًا نَفَخْت بِهَا أَضَاءَتْ ... وَلَكِنْ أَنْتَ تَنْفُخُ فِي رَمَادِ. (نیل الأوطار، ج: 4ص: 90)
یعنی بزرگوں کی قبروں پر بنائی ہوئی عمارات، قبے اور زیارت گاہیں یہ سب اس حدیث کے تحت داخل ہونے کی وجہ سے قطعاً ناجائز ہیں۔
یہی قبروں کو مساجد بنانا ہے جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے اور ان قبور کے پختہ بنانے اور ان پر عمارات کو مزین کرنے سے اس قدر مفاسد پیدا ہورہے ہیں کہ آج ان پر اسلام رو رہا ہے۔
ان میں سے مثلاً یہ کہ ایسے مزاروں کے بارے میں جاہل لوگ وہی اعتقادات رکھتے ہیں جو کفار بتوں کے بارے میں رکھتے ہیں بلکہ ان سے بھی بڑھ کر۔
ایسے جاہل ان قبور والوں کو نفع دینے والے اور نقصان دور کرنے والے تصور کرتے ہیں۔
اس لیے ان سے حاجات طلب کرتے ہیں۔
اپنی مرادیں ان کے سامنے رکھتے ہیں اور ان سے ایسے ہی دعائیں کرتے ہیں جیسے بندگان خدا کو خدا سے دعائیں کرنی چاہئیں۔
ان مزرات کی طرف کجاوے باندھ باندھ کر سفر کرتے ہیں اور وہاں جاکر ان قبروں کو مسح کرتے ہیں اور ان سے فریاد رسی چاہتے ہیں۔
مختصر یہ کہ جاہلیت میں جو کچھ بتوں کے ساتھ کیا جاتا تھا وہ سب کچھ ان قبروں کے ساتھ ہورہا ہے۔
إنا للہ وإناإلیه راجعون۔
اور اس کھلے ہوئے بدترین کفر ہونے کے باوجود ہم کسی بھی اللہ کے بندے کو نہیں پاتے جو اللہ کے لیے اس پر غصہ کرے اور دین حنیف کی کچھ غیرت اس کو آئے۔
عالم ہوں یا متعلم‘ امیرہوں یا وزیر یا بادشاہ‘ اس بارے میں سب خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔
یہاں تک کہ سنا گیا ہے کہ یہ قبرپرست دشمن کے سامنے اللہ کی جھوٹی قسم کھاجاتے ہیں۔
مگر اپنے پیروں مشائخ کی جھوٹی قسموں کے وقت ان کی زبانیں لڑکھڑانے لگ جاتی ہیں۔
اس سے ظاہر ہے کہ ان کا شرک ان لوگوں سے بھی آگے بڑھا ہوا ہے جو وہ خدا یا تین خدا مانتے ہیں۔
پس اے دین کے عالمو! اور مسلمانوں کے بادشاہو! اسلام کے لیے ایسے کفر سے بڑھ کر اور مصیبت کیا ہوگی اور غیر اللہ کی پرستش سے بڑھ کر دین اسلام کے لیے اور نقصان کی چیز کیا ہوگی اور مسلمان اس سے بھی بڑھ کر اور کس مصیبت کا شکار ہوں گے اور اگر اس کھلے ہوئے شرک کے خلاف ہی آواز انکار بلند نہ کی جاسکی تو اور کونسا گناہ ہوگا جس کے لیے زبانیں کھل سکیں گی۔
کسی شاعر نے سچ کہا ہے۔
اگر تو زندوں کو پکارتا تو سنا سکتا تھا۔
مگر جن (مردوں)
کو تو پکار رہا ہے وہ تو زندگی سے قطعاً محروم ہیں۔
اگر تم آگ میں پھونک مارتے تو وہ روشن ہوتی لیکن تم راکھ میں پھونک مار رہے ہو جو کبھی بھی روشن نہیں ہوسکتی۔
خلاصہ یہ کہ ایسی قبور اور ایسے مزارات اور ان پر یہ عرس‘ قوالیاں‘ میلے ٹھیلے‘ گانے بجانے قطعاً حرام اور شرک اور کفر ہیں۔
اللہ ہر مسلمان کو شرک جلی اور خفی سے بچائے۔
آمین حدیث علی ؓ کے ذیل میں حجتہ الہند حضرت شاہ ولی اللہ مرحوم فرماتے ہیں:
ونهي أن یجصص القبر وأن یبنی علیه وأن یقعد علیه وقال لا تصلوا إلیها لأن ذلك ذریعة أن یتخذها الناس معبودا وأن یفرطوا في تعظمها بما لیس بحق فیحرفوا دینهم کما فعل أهل الکتاب وهو قوله صلی اللہ علیه وسلم لعن اللہ الیھود والنصاریٰ اتخذوا قبور أنبیاءهم مساجد الخ۔
(حجة اللہ البالغة، ج: 2ص: 126 کراتشي)
اور قبر کو پختہ کرنے اور اس پر عمارت بنانے اور اس پر بیٹھنے سے منع فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ قبروں کی طرف نماز نہ پڑھو، کیونکہ یہ اس بات کا ذریعہ ہے کہ لوگ قبروں کی پرستش کرنے لگیں اور لوگ ان قبروں کی اتنی زیادہ تعظیم کرنے لگیں جس کی وہ مستحق نہیں ہیں۔
پس لوگ اپنے دین میں تحریف کرڈالیں، جیسا کہ اہل کتاب نے کیا۔
چنانچہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہود اور نصاریٰ پر خدا کی لعنت ہو۔
انہوں نے اپنے انبیاءکی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔
پس حق یہ ہے کہ توسط اختیار کرے۔
نہ تو مردہ کی اس قدر تعظیم کرے کہ وہ شرک ہوجائے اور نہ اس کی اہانت اور اس کے ساتھ عداوت کرے کہ مرنے کے بعد اب یہ سارے معاملات ختم کرکے مرنے والا اللہ کے حوالہ ہوچکا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1330   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1330  
1330. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے اپنی مرض وفات میں فرمایا:اللہ تعالیٰ یہودو نصاری پر لعنت کرے کہ انھوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:اگر یہ ڈر نہ ہوتا تو آپ کی قبر مبارک کو بالکل ظاہر کردیا جا تا مگر مجھے اندیشہ ہے کہ مبادا اسے بھی سجدہ گاہ بنا لیا جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1330]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کا تقاضا ہے کہ قبر کو سجدہ گاہ بنانا منع ہے جبکہ عنوان کا حاصل یہ ہے کہ قبر پر مسجد بنانا حرام ہے۔
ان دونوں کے درمیان تغایر ہے، لیکن یہ دونوں مفہوم لازم و ملزوم ہیں، اس لیے ان میں تغایر کی کوئی حیثیت نہیں۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ میری قبر کو عید مت بنانا۔
(سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 2042)
عید بنانے سے مراد یہ ہے کہ معین اوقات اور معروف موسموں میں عبادت کے لیے قبر کے پاس جانا اور وہاں جشن کا سا سماں پیدا کرنا۔
اس خطرے کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ کو حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں دفن کیا گیا ہے اور آپ کی قبر کو کھلا نہیں رکھا گیا۔
جب مسجد کی توسیع کی گئی اور حجرہ شریف کو مسجد میں شامل کر دیا گیا تو حجرہ شریف کو مثلث، یعنی تکونی شکل میں بنا دیا گیا تاکہ استقبال کی صورت میں قبر کی طرف سجدہ نہ ہو۔
چونکہ رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک روئے زمین کی تمام قبروں سے افضل ہے، جب اسے عید بنانے سے منع کر دیا گیا ہے تو دوسری کسی بھی قبر کو عید بنانا بالاولی ممنوع ہوا، لیکن افسوس کہ آج کا نام نہاد مسلمان اس فرمان نبوی کی کھل کر مخالفت کر رہا ہے۔
أعاذنا الله منه۔
اللہ کا شکر ہے کہ حکومت سعودیہ نے ابھی تک اس پر کنٹرول کر رکھا ہے۔
زادها الله عزا و شرفا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1330