صحيح مسلم
كِتَاب الرِّقَاقِ -- کتاب الرقاق
27. باب قِصَّةِ أَصْحَابِ الْغَارِ الثَّلَاثَةِ ، وَالتَّوَسُّلِ بِصَالِحِ الْأَعْمَالِ
باب: غار میں پھنسے ہوئے تین آدمیوں کا قصہ اور نیک اعمال کا وسیلہ۔
حدیث نمبر: 6949
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ الْمُسَيَّبِيُّ ، حَدَّثَنِي أَنَسٌ يَعْنِي ابْنَ عِيَاضٍ أَبَا ضَمْرَةَ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " بَيْنَمَا ثَلَاثَةُ نَفَرٍ يَتَمَشَّوْنَ أَخَذَهُمُ الْمَطَرُ، فَأَوَوْا إِلَى غَارٍ فِي جَبَلٍ، فَانْحَطَّتْ عَلَى فَمِ غَارِهِمْ صَخْرَةٌ مِنَ الْجَبَلِ، فَانْطَبَقَتْ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: انْظُرُوا أَعْمَالًا عَمِلْتُمُوهَا صَالِحَةً لِلَّهِ فَادْعُوا اللَّهَ تَعَالَى بِهَا لَعَلَّ اللَّهَ يَفْرُجُهَا عَنْكُمْ، فَقَالَ: أَحَدُهُمُ اللَّهُمَّ إِنَّهُ كَانَ لِي وَالِدَانِ شَيْخَانِ كَبِيرَانِ وَامْرَأَتِي وَلِي صِبْيَةٌ صِغَارٌ أَرْعَى عَلَيْهِمْ، فَإِذَا أَرَحْتُ عَلَيْهِمْ حَلَبْتُ فَبَدَأْتُ بِوَالِدَيَّ، فَسَقَيْتُهُمَا قَبْلَ بَنِيَّ، وَأَنَّهُ نَأَى بِي ذَاتَ يَوْمٍ الشَّجَرُ، فَلَمْ آتِ حَتَّى أَمْسَيْتُ فَوَجَدْتُهُمَا قَدْ نَامَا، فَحَلَبْتُ كَمَا كُنْتُ أَحْلُبُ، فَجِئْتُ بِالْحِلَابِ فَقُمْتُ عِنْدَ رُءُوسِهِمَا أَكْرَهُ أَنْ أُوقِظَهُمَا مِنْ نَوْمِهِمَا، وَأَكْرَهُ أَنْ أَسْقِيَ الصِّبْيَةَ قَبْلَهُمَا وَالصِّبْيَةُ يَتَضَاغَوْنَ عِنْدَ قَدَمَيَّ، فَلَمْ يَزَلْ ذَلِكَ دَأْبِي وَدَأْبَهُمْ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ، فَافْرُجْ لَنَا مِنْهَا فُرْجَةً نَرَى مِنْهَا السَّمَاءَ، فَفَرَجَ اللَّهُ مِنْهَا فُرْجَةً فَرَأَوْا مِنْهَا السَّمَاءَ، وَقَالَ الْآخَرُ: اللَّهُمَّ إِنَّهُ كَانَتْ لِيَ ابْنَةُ عَمٍّ أَحْبَبْتُهَا كَأَشَدِّ مَا يُحِبُّ الرِّجَالُ النِّسَاءَ، وَطَلَبْتُ إِلَيْهَا نَفْسَهَا، فَأَبَتْ حَتَّى آتِيَهَا بِمِائَةِ دِينَارٍ، فَتَعِبْتُ حَتَّى جَمَعْتُ مِائَةَ دِينَارٍ، فَجِئْتُهَا بِهَا فَلَمَّا وَقَعْتُ بَيْنَ رِجْلَيْهَا، قَالَتْ: يَا عَبْدَ اللَّهِ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَفْتَحْ الْخَاتَمَ إِلَّا بِحَقِّهِ، فَقُمْتُ عَنْهَا فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ، فَافْرُجْ لَنَا مِنْهَا فُرْجَةً فَفَرَجَ لَهُمْ، وَقَالَ الْآخَرُ: اللَّهُمَّ إِنِّي كُنْتُ اسْتَأْجَرْتُ أَجِيرًا بِفَرَقِ أَرُزٍّ، فَلَمَّا قَضَى عَمَلَهُ، قَالَ: أَعْطِنِي حَقِّي، فَعَرَضْتُ عَلَيْهِ فَرَقَهُ فَرَغِبَ عَنْهُ، فَلَمْ أَزَلْ أَزْرَعُهُ حَتَّى جَمَعْتُ مِنْهُ بَقَرًا وَرِعَاءَهَا فَجَاءَنِي، فَقَالَ: اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَظْلِمْنِي حَقِّي، قُلْتُ: اذْهَبْ إِلَى تِلْكَ الْبَقَرِ وَرِعَائِهَا فَخُذْهَا، فَقَالَ: اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَسْتَهْزِئْ بِي، فَقُلْتُ: إِنِّي لَا أَسْتَهْزِئُ بِكَ خُذْ ذَلِكَ الْبَقَرَ وَرِعَاءَهَا، فَأَخَذَهُ فَذَهَبَ بِهِ، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ لَنَا مَا بَقِيَ فَفَرَجَ اللَّهُ مَا بَقِيَ "،
انس بن عیاض ابو ضمرہ نے موسیٰ بن عقبہ سے، انہوں نے نافع سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی۔ آپ نے فرمایا: "تین آدمی پیدال چلے جا رہے تھے کہ انہیں بارش نے آ لیا، انہوں نے پہاڑ میں ایک غار کی پناہ لی، تو (اچانک) ان کے گار کے منہ پر پہاڑ سے ایک چٹان آ گری اور ان کے اوپر آ کر انہیں ڈھانک دیا، انہوں نے ایک دوسرے سے کہا: تم اپنے ان نیک اعمال پر نظر ڈالو جو تم نے (صرف اور صرف) اللہ کے لیے کیے ہوں اور ان کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو، شاید وہ اس بندش اور قید سے تمہیں آزاد کر دے۔ اس پر ان میں سے ایک نے کہا، اے اللہ! میرے انتہائی بوڑھے والدین، بیوی اور چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جن کی میں نگہداشت کرتا ہوں۔ جب شام کو میں اپنے جانور (چرانے کے بعد انہیں) ان کے پاس واپس آتا، ان کا دودھ دوہتا تو آغاز اپنے والدین سے کرتا اور اپنے بچوں سے پہلے انہیں پلاتا تھا۔ ایک دن (مویشیوں کے چرنے کے قابل) درختوں کی تلاش مجھے بہت دور لے گئی، میں رات سے پہلے گھر نہ پہنچ سکا۔ میں نے انہیں پایا کہ وہ دونوں سو چکے ہیں۔ میں جس طرح 0ہر روز) دودھ نکالا کرتا تھا نکالا اور وہ ڈوبا ہوا دودھ لے کر ان کے سرہانے کھڑا ہو گیا۔ مجھے یہ بھی ناپسند تھا کہ ان کو نیند سے جگاؤں اور یہ بھی گوارا نہ تھا کہ ان سے پہلے بچوں کو پلاؤں، بچے بھوک کی شدت سے بلکتے ہوئے میرے قدموں میں لوٹ پوٹ ہو رہے تھے، میں اسی حال میں (کھڑا) رہا اور وہ بھی اسی حالت میں رہے یہاں تک کہ صبح طلوع ہو گئی۔ (اے اللہ!) اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ صرف تیری رضا کے لیے کیا ہے تو اس (غار کے بند منہ) میں اتنا سوراخ کر دے کہ ہم آسمان کو دیکھ لیں۔ اللہ نے اس میں ایک سوراخ کر دیا کہ وہ آسمان کو دیکھنے لگے۔ اور دوسرا (ساتھی) کہنے لگا: اے اللہ! میری ایک چچا زاد تھی، میں اس سے وہی شدید محبت کرتا تھا جو ایک مرد عورت سے کرتا ہے۔ میں نے اس سے اپنے لیے (خود) اسی کو مانگا۔ اس نے اس وقت تک (میری بات ماننے سے) انکار کر دیا، یہاں تک کہ میں اسے (سونے کے) سو دینار لا کر دوں۔ میں انہیں حاصل کرنے میں لگ گیا یہاں تک کہ سو دینار اکٹھے کر لیے، پھر جب میں ان کے دونوں قدموں کے درمیان پہنچا تو وہ کہنے لگی: اللہ کے بندے! اللہ سے ڈر اور حق (نکاح) کے بغیر مہر (بکارت) نہ توڑ۔ تو (تیرا نام سن کر) میں اس سے (الگ ہو کر) کھڑا ہو گیا۔ اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ تجھے راضی کرنے کے لیے کیا تھا تو اس میں (اور زیادہ) سوراخ کر دے (اللہ نے) ان کے لیے (اور زیادہ) سوراخ کر دیا۔ اور تیسرے نے (دعا کرتے ہوئے) کہا: اے اللہ! میں نے ایک مزدور کو چاولوں کے ایک فرق (تین صاع، تقریبا ساڑھے سات کلو گرام) کی اجرت کے عوض کام پر لگایا۔ جب اس نے اپنا کام پورا کر لیا تو کہا: میرا حق (اجرت) ادا کرو۔ میں نے اسے اس کا فرق (تین صاع چاول) پیش کیا۔ وہ (اسے کم قرار دیتے ہوئے) اس کو چھوڑ کر چلا گیا۔ میں مسلسل اس (تین صاع چاولوں) کو کاشت کرنے لگا، یہاں تک کہ میں نے اس (کی آمدنی) سے گائے (کے بہت سے ریوڑ) اور ان کو چرانے والے (غلام) اکٹھے کر لیے۔ پھر (مدت بعد) وہ میرے پاس (واپس) آیا اور کہا: اللہ سے ڈرو، میرے حق میں مجھ پر ظلم نہ کرو۔ میں نے کہا: ان گایوں (کے ریوڑوں) اور انہیں چرانے والے (غلاموں) کی طرف جاؤ اور انہیں لے لو۔ اس نے کہا: اللہ سے ڈرو! میرے ساتھ مذاق تو نہ کرو۔ میں نے کہا: میں مذاق نہیں کر رہا، یہ سب گائیں اور ان کو چرانے والے (غلام) لے جاؤ، وہ انہیں لے کر چلا گیا۔ اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ صرف تجھے راضی کرنے کے لیے کیا تھا تو جو حصہ باقی رہ گیا ہے، اسے بھی کھول دے۔ اللہ نے باقی حصہ بھی کھول دیا (اور وہ آزاد ہو کر غار سے باہر نکل آئے۔) "
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں،آپ نے فرمایا:" جبکہ تین آدمی چلے تھے، انھیں بارش نے آلیا تو انھوں نے پہاڑ کی ایک غار میں پناہ لی ان کے غار کے منہ پر پہاڑ سے ایک چٹان آپڑی اور وہ ان پر بند ہوگئی، چنانچہ انھو ں نے ایک دوسرے سے کہا، اپنے ان نیک اچھے اعمال پر نظر ڈالو، جو خاص طور پر تم نے اللہ کی رضا کے لیے کیے ہیں۔ سو ان میں سے ایک نے کہا، اے اللہ! میرے ماں باپ بہت بوڑھے تھے اور میری بیوی تھی اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے تھے میں ان کی خاطر بکریاں چرایا کرتا تھا اور جب میں ان کے پاس بکریاں واپس لاتا،دودھ دوہتا اور سب سے پہلے ماں باپ کو پلاتا، اپنی اولاد سے بھی پہلے انہیں پلاتا اور صورت حال یہ پیدا ہوئی کہ ایک دن مجھے چراگاہ کے درخت دور لے گئے یعنی بکریوں کو چراتا، چراتا میں دور نکل گیا سو میں شام تک نہ آسکا، جب گھر پہنچا تو دیکھا کہ وہ دونوں سو چکے ہیں۔ سو میں نے حسب معمول دودھ دوہیا اور دودھ لے کر آیا اور ان کے سرہانے کھڑا ہو گیا مجھے ناپسند گزرا کہ میں ان کو نیند سے بیدار کروں اور یہ بھی مجھے برا معلوم ہوا کہ ماں باپ سے پہلے بچوں کو دودھ پلا دوں، حالانکہ بچے میرے پاؤں کے پاس بلبلا رہے تھےچلا رہے تھے،سو طلوع فجر تک میری اور ان کی یہی حالت رہی یعنی میں دودھ لے کر کھڑا رہا، بچے روتے رہے اور ماں باپ سوئے رہے۔ اے اللہ اگر توجانتا ہے میں نے یہ کام محض تیری رضا اور خوشنودی کے لیے کیا تھا توتو اس پتھر کو اتنا کھول دے کہ ہم اس سے آسمان کو دیکھنے لگیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے پتھر کو اتنا ہٹا دیا کہ انھیں آسمان نظر آنے لگا اور دوسرے شخص نے کہا: اے اللہ! صورت حال یہ ہے کہ میرے چچا کی ایک بیٹی تھی، میں اس سے اس قدر انتہائی محبت رکھتا تھا جو مردوں کو زیادہ سے زیادہ عورتوں کے ساتھ ہو سکتی ہے میں نے اس سے اپنے آپ کو پیش کرنے کا مطالبہ کیا (میں نے اس سے بدکاری کی خواہش کی)اس نے کہا:جب تک اسے سواشرفی نہ دوگے۔ ایسا نہیں ہو سکتا تو میں نے بھر پور کوشش کر کے سواشرفیاں جمع کر لیں اور ان کو لے کر اس کے پاس آگیا پھر جب میں اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گیا۔ (تاکہ اپنا کام کروں) اس نے کہا، اے اللہ کے بندے،اللہ سے ڈرا اور مہر کو جائز طریقہ سے کھول تو میں اس سے کھڑا ہو گیا۔(اپنا ارادہ ترک کر دیا) سواگر تو جانتا ہے میں نے یہ کام محض تیری رضا کی خاطر کیا تھا تو ہمارے لیے اس سے کشادگی پیدا کر دے تو اللہ نے پتھر کو اور ہٹا دیا تیسرے شخص نے کہا:اے اللہ! میں نے ایک فرق چاولوں (تین صاع) پر ایک شخص کو مزدور رکھا تھا جب اس نے اپنا کام ختم کر لیا تو کہا مجھے میرا حق (مزدودری) دو۔ چنانچہ میں نے اسے اس طے شدہ ایک فرق پیش کیا تو اس نے اس سے بے رغبتی اختیار کی پسند نہ کیا (اور چلا گیا چنانچہ میں ان چاولوں کو ہمیشہ کاشت کرتا رہا، حتی کہ میں نے ان (قیمت) سے گائیں اور ان کے چرواہے جمع کر لیے پھر وہ (عرصہ کے بعد) آیا اور کہا، اللہ سے ڈر اور میرا حق نہ مار میں نے کہا ان گائیوں اور ان کے چرواہوں کی طرف جاؤ اور ان کو لے لو تو اس نے کہا،اللہ سے ڈر اور میرے ساتھ مذاق نہ کر سو میں نے کہا، میں تیرے ساتھ مذاق نہیں کرتا۔ وہ گائیاں اور ان کے چرواہے لے لو وہ انہیں لے کر چلا گیا۔ سو اگر تو جانتا ہے، میں نے یہ کام تیری خوشنودی کی خاطر کیا تھا تو باقی پتھر کو بھی ہم سے ہٹا دے۔ چنانچہ اللہ نے باقی پتھر کو بھی ہٹا دیا۔"
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6949  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ،
اپنی امت کو سبق آموزی اور عبرت پذیری کے لیے سنایا،
اس میں چند باتیں خصوصی طور پر توجہ طلب ہیں۔
(1)
سب سے اہم اور پہلی بات تو یہ ہے کہ ان تینوں افراد نے اپنے عمل صرف اللہ کی رضا جوئی کے لیے کیے تھے اور ان اعمال کی اس خصوصیت کی بنا پر،
اللہ کے حضور پیش کیا تھا،
جس سے اخلاص کی برکت و تاثیر اور قوت کا اظہار ہوتاہے،
نیک اعمال کے وسیلہ سے دعا کرنا پسندیدہ ہے اور دعا کی قبولیت کا سبب ہے۔
(2)
ان تینوں عملوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ یہ عمل اللہ کے حکم و مرضی کے مقابلہ میں اپنے نفس کو دبانے اور اس کی چاہت کو قربان کرنے کی اعلیٰ مثال ہیں،
دیکھئے،
پہلے شخص کا مجاہدہ نفس کس قدرشدید ہے کہ وہ دن بھر جانوروں کو جنگل میں چراتا ہے،
شام کو دیر سے تھکا ہارا ہوا گھر پہنچتا ہے تو اس کا دل آرام کے لیے کس قدر بے قرار اور بے چین ہوگا،
لیکن چونکہ ماں باپ دودھ پیے بغیر سو گئے تھے اور یہ اللہ کی رضا اس میں سمجھتا تھا کہ وہ ان کی نیند و آرام میں خلل اندازنہ ہو،
جس وقت نیند سے خود ان کی آنکھ کھلے تو یہ ان کو دودھ پلائے،
اس لیے یہ اپنے آرام اور راحت کو قربان کر کے ان کے سرہانے کھڑا ہو گیا،
حتی کہ اس طرح صبح ہو گئی،
اور اس کے معصوم،
پیارے پیارے بچے اس کے قدموں میں پڑے بھوک سے روتے چلاتے رہے،
لیکن اس بوڑھے ماں باپ کے حق کو مقدم خیال کر کے اللہ ہی کی خوشنودی کے لیے یہ مجاہدہ بھی کیا کہ بوڑھے ماں باپ سے پہلے اپنے پیرے بچوں کو بھی دودھ نہ پلایا۔
(3)
ایک دوسرا شخص ہے،
جو اپنی عم زاد کے عشق میں مبتلا ہے اور پردہ کی پابندی نہ کرنے کی وجہ سے،
اس کے گھر اس کی کھلی آمدورفت ہے اور وہ شادی شدہ ہے اور اپنی گھریلو،
مجبوریوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر،
آخرکار،
ایک معقول رقم طے کر کے،
اس کی خواہش پوری کرنے کے لیے آمادہ ہو جاتی ہے اور وہ محنت و مزدوری کر کے اس کو رقم مہیا کر دیتا ہے اور اس کو زندگی کی سب سے بڑی تمنا پوری کرنے کا پوراپورا موقع مل جاتاہے اور کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہتی تو ٹھیک اس وقت وہ اللہ کی بندی،
اسے اللہ کا خوف یاد دلاتی ہے اور اس کو احساس ہوجاتا ہے،
یہ اس قدر مجبور اور بے بس ہوکر بھی اللہ سے ڈررہی ہے تو وہ اپنے نفس کی خواہش لب بام پہنچ کر پوری کیے بغیر اللہ سے ڈر کر اس کی رضا طلبی میں لگ جاتا ہے،
ہر نفس رکھنے والا انسان اپنے طور پر اندازہ کر سکتا ہے،
یہ کتنا سخت مجاہدہ ہے اور اللہ کی رضا کے مقابلے میں اپنی خواہش نفس کو قربان کرنے کی کتنی اعلیٰ مثال ہے۔
(4)
تیسرا شخص ایک مقررہ مزدوری پر مزدور رکھتا ہے،
آدھا دن گزرنے کے بعد ایک اور مزدور آتا ہے،
اس کو بھی مزدور رکھ لیتا ہے،
وہ آدھے دن میں،
دوسرے ساتھیوں کے بقدر پورے دن کا کام کر ڈالتا ہے اور مالک اس کو دوسرے مزدوروں کے برابر اجرت دے دیتا ہے،
ایک مزدور ناراض ہو جاتا ہے کہ اس کو ہمارے برابر مزدوری کیسے مل گئی ہے،
مالک سمجھاتاہے،
تمہیں تمہاری طے شدہ مزدوری دے رہا ہوں،
تجھے دوسرے کو مزدوری دینے پر اعتراض کرنے کا حق حاصل نہیں ہے،
لیکن وہ نہیں مانتا اور مزدوری چھوڑ کر ناراض ہو کر چلاجاتا ہے تو مالک اس کی مزدوری کے چاولوں کو اپنی زمین میں کاشت کرنا شروع کر دیتا ہے،
پھر جو پیداوار حاصل ہوتی ہے،
وہ سب اس مزدور کی ملکیت قرار دیتا ہے،
پھر ان کو بیچ کر جانور خریدتا ہے،
اللہ ان میں اس قدر اضافہ فرماتا ہے کہ آہستہ آہستہ،
اونٹ،
بکریاں اور گائے کے ریوڑ تیار ہو جاتے ہیں کہ وہ ان کی نگہداشت کے لیے غلام بھی خریدتا ہے،
پھر جب عرصہ گزرنے کے بعد وہ مزدور آتا ہے تو یہ اللہ کا نیک اور امانت دار بندہ وہ سارے حیوانات اور غلام جو خود اس کی محنت و کوشش اور توجہ سے فراہم ہوئے تھے تو وہ سب کے سب اس مزدور کے حوالہ کر دیتا ہے،
اب ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ اپنے نفس کی یہ کتنی شدید خواہش ہوگی کہ یہ دولت جو میری محنت اور توجہ سے حاصل ہوئی اور مزدور کو اس کا علم تک نہیں ہے،
اس کو اپنے پاس ہی رکھا جائے،
لیکن اس اللہ کے بندے نے اللہ کی خوشنودی کی طلب میں اپنے نفس کی اس شدید خواہش کو قربان کیا اور وہ ساری دولت اس مزدور کے حوالے کر دی،
جو بلاوجہ ناراض ہوکر چلاگیا تھا اور بات سمجھانے کے باوجود نہیں ماناتھا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6949