صحيح مسلم
كِتَاب التَّوْبَةِ -- توبہ کا بیان
1. باب فِي الْحَضِّ عَلَى التَّوْبَةِ وَالْفَرَحِ بِهَا:
باب: توبہ کی ترغیب دینے اور توبہ کرنے پر خوش ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 6952
حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ مَيْسَرَةَ ، حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، وَأَنَا مَعَهُ حَيْثُ يَذْكُرُنِي، وَاللَّهِ لَلَّهُ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنْ أَحَدِكُمْ يَجِدُ ضَالَّتَهُ بِالْفَلَاةِ، وَمَنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا، وَمَنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا، وَإِذَا أَقْبَلَ إِلَيَّ يَمْشِي أَقْبَلْتُ إِلَيْهِ أُهَرْوِلُ ".
) ابوصالح نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ عزوجل نے فرمایا: میرے بارے میں میرے بندے کا جو گمان ہو میں اس کے ساتھ (مطابق ہوتا) ہوں اور وہ مجھے جہاں (بھی) یاد کرے میں اس کے پاس ہوتا ہوں۔ اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر تم میں سے ایسے آدمی کی نسبت بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جسے چٹیل بیابان میں اپنی گم شدہ سواری (سامان سمیت واپس) مل جاتی ہے۔ (میرا) جو بندہ ایک بالشت میرے قریب آتا ہے، میں ایک ہاتھ اس کے قریب آ جاتا ہوں اور جو ایک ہاتھ میرے قریب ہوتا ہے، میں دونوں ہاتھوں کی پوری لمبائی کے برابر اس کے قریب ہو جاتا ہوں اور جو چلتا ہوا میری طرف آتا ہے، میں دوڑتا ہوا اس کے پاس آتا ہوں۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:"اللہ عزوجل کا فرمان ہے۔میں اپنے بندے کے ساتھ اس کے اپنے بارے میں گمان کے مطابق سلوک کرتا ہوں اور میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں، جہاں وہ مجھے یاد کرتا ہے۔ اللہ کی قسم،اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی توبہ پر اس سے زیادہ خوش ہوتا ہے جتنا تم میں سے کوئی شخص اس وقت خوش ہوتا ہے جبکہ وہ جنگل میں اپنی گمشدہ سواری پالیتا ہے اور جو مجھ سے ایک بالشت قریب ہوتا ہے۔ میں اس کے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہوں اور جو مجھ سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے میں اس سے چار ہاتھ قریب ہوتا ہوں اور جب وہ میری طرف چل کر آتا ہے۔ میں اس کی طرف دوڑ کر متوجہ ہوتا ہوں۔"
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3822  
´عمل کی فضیلت۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں، جیسا وہ گمان مجھ سے رکھے، اور میں اس کے ساتھ ہوں جب وہ میرا ذکر کرتا ہے، اگر وہ میرا دل میں ذکر کرتا ہے تو میں بھی دل میں اس کا ذکر کرتا ہوں، اور اگر وہ میرا ذکر لوگوں میں کرتا ہے تو میں ان لوگوں سے بہتر لوگوں میں اس کا ذکر کرتا ہوں، اور اگر وہ مجھ سے ایک بالشت نزدیک ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں، اور اگر وہ چل کر میرے پاس آتا ہے تو میں اس کی جانب دوڑ کر آتا ہوں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3822]
اردو حاشہ:
فوائد و  مسائل:

(1)
اللہ تعالیٰ سے حسن ظن رکھنا چا ہیے۔
حسن ظن کا صحیح طریقہ یہ ہےکہ نیک اعمال کیے جائیں اور ان کی قبولیت کی امید رکھی جائے۔
گناہوں سے توبہ کی جائے اور بخشش کی امید رکھی جائے۔
گناہوں کے راستے پر بھاگتے چلے جانا اور اللہ کی رحمت کی امید رکھنا نادانی ہے۔

(3)
اس میں بالواسطہ عمل کی تلقین ہے کیونکہ عمل کے بغیر کی امید نہیں رکھی جا سکتی، لہٰذا اچھے عمل کرنے والا ہی اللہ سے اچھی امید رکھ سکتا ہے۔
برے عمل کرنے والا بری امید ہی رکھ سکتا ہے۔

(4)
جماعت میں ذکر کرنے سے مراد خود ساختہ اجتماعی ذکر نہیں بلکہ یا تو یہ مراد ہے کہ جیسے نماز کے بعد سب لوگ اپنے اپنے طور پر مسنون دعائیں اور اذکار پڑھتے ہیں یا اللہ کی رحمتوں، نعمتوں اور اس کے احکام وغیرہ کا ذکر ہے، یعنی ایک شخص بیان کرے اور دوسرے سنتے رہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3822   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2388  
´اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں جیسا وہ گمان مجھ سے رکھے، اور میں اس کے ساتھ ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد/حدیث: 2388]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث میں اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھنے کی ترغیب ہے،
لیکن عمل کے بغیرکسی بھی چیز کی امید نہیں کی جاسکتی ہے،
گویا اللہ کا معاملہ بندوں کے ساتھ ان کے عمل کے مطابق ہوگا،
بندے کا عمل اگر اچھا ہے تو اس کے ساتھ اچھا معاملہ اوربرے عمل کی صورت میں اس کے ساتھ برامعاملہ ہوگا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2388   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6952  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
توبہ کا معنی لوٹنا،
واپس آنا ہے اور شریعت کی اصطلاح میں بندے کا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور معصیت سے،
اس کی فرمانبرداری اور اطاعت کی طرف لوٹنا ہے،
اس توبہ کے لیے ضروری ہے،
انسان گناہ سے باز آجائے،
اس کے ارتکاب پر نادم ہو،
دوبارہ نہ کرنے کا عزم اور عہد کرے،
اگر کسی کا حق دبایا ہے تو وہ ادا کرے اور ظلم و زیادتی معاف کروائے اور بقول امام ابن المبارک جس جسم کو حرام مال سے پالا پوسا ہے،
اس کو غم وفکر اور پریشانی سے ہلکا کرے،
تاکہ پاک گوشت نشونما پائے اور اللہ کی فرحت اور خوشی اس کے شایان شان ہے،
اس کی تاویل اور تعطیل کی ضرورت نہیں ہے،
یہاں توبہ کی فضیلت کو ایک مثال کے ذریعہ سمجھایا گیا ہے،
نعوذباللہ،
اللہ کی فرح کو انسان کی فرح ومسرت سے تشبیہ دینا مطلوب نہیں ہے،
باقی حدیث کی تشریح پچھلی کتاب کے آغاز میں گزر چکی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6952