صحيح مسلم
كِتَاب التَّوْبَةِ -- توبہ کا بیان
1. باب فِي الْحَضِّ عَلَى التَّوْبَةِ وَالْفَرَحِ بِهَا:
باب: توبہ کی ترغیب دینے اور توبہ کرنے پر خوش ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 6960
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ وَهُوَ عَمُّهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ حِينَ يَتُوبُ إِلَيْهِ مِنْ أَحَدِكُمْ كَانَ عَلَى رَاحِلَتِهِ بِأَرْضِ، فَلَاةٍ فَانْفَلَتَتْ مِنْهُ وَعَلَيْهَا طَعَامُهُ وَشَرَابُهُ، فَأَيِسَ مِنْهَا، فَأَتَى شَجَرَةً فَاضْطَجَعَ فِي ظِلِّهَا قَدْ أَيِسَ مِنْ رَاحِلَتِهِ فَبَيْنَا هُوَ كَذَلِكَ، إِذَا هُوَ بِهَا قَائِمَةً عِنْدَهُ فَأَخَذَ بِخِطَامِهَا "، ثُمَّ قَالَ: " مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ اللَّهُمَّ أَنْتَ عَبْدِي وَأَنَا رَبُّكَ أَخْطَأَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ ".
) اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے کہا: ہمیں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی اور وہ (حضرت انس رضی اللہ عنہ) ان کے چچا ہیں، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر، جب وہ (بندہ) اس کی طرف توبہ کرتا ہے، تم میں سے کسی ایسے شخص کی نسبت کہیں زیادہ خوش ہوتا ہے جو ایک بے آب و گیاہ صحرا میں اپنی سواری پر (سفر کر رہا) تھا تو وہ اس کے ہاتھ سے نکل (کر گم ہو) گئی، اس کا کھانا اور پانی اسی (سواری) پر ہے۔ وہ اس (کے ملنے) سے مایوس ہو گیا تو ایک درخت کے پاس آیا اور اس کے سائے میں لیٹ گیا۔ وہ اپنی سواری (ملنے) سے ناامید ہو چکا تھا۔ وہ اسی عالم میں ہے کہ اچانک وہ (آدمی) اس کے پاس ہے، وہ (اونٹنی) اس کے پاس کھڑی ہے، اس نے اس کو نکیل کی رسی سے پکڑ لیا، پھر بے پناہ خوشی کی شدت میں کہہ بیٹھا، اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں۔ خوشی کی شدت کی وجہ سے غلطی کر گیا۔"
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" یقیناً جب اللہ کا کوئی بندہ اس کی طرف لوٹ آتا ہے تو اس کو اپنے بندے کی توبہ سے اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے جتنی تم میں سے کسی کو اس وقت ہوتی ہے کہ وہ بیاباں جنگل میں اپنی سواری پر تھا تو وہ اس سے چھوٹ گئی جبکہ اس کا کھانا اور پینا اسی پر تھا تو وہ اس سے سواری سے ناامید ہو کر ایک درخت کے پاس آیا اور اس کے سایہ میں لیٹ گیا وہ اپنی سواری سے مایوس ہو چکا تھا وہ اس حالت میں تھا کہ وہ اپنی سواری کو اپنے پاس کھڑی ہوئی پاتا ہے سو وہ اس کی مہار پکڑلیتا ہے پھر مسرت کی شدت میں مدہوش ہو کر کہتا ہے اے میرے اللہ!تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں مسرت کے بے پایاں ہونے کی بنا پر وہ چوک گیا (الفاظ الٹ دئیے)"
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6960  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اگر انسان ایسے جنگل میں سوار ہو کر جارہو،
جو بالکل سنسان اور بے آب وگیاہ ہو،
جہاں کھانے پینے کے لیے کوئی چیز نہ ملتی ہو اور وہاں اس کی سواری گم ہو جائے،
جس کے بغیر،
وہ جنگل کا سفر طے نہ کر سکتاہو اور اس کے کھانے پینے کا سارا سامان بھی اس سواری پر ہو اور وہ اس کو تلاش کرتے کرتے تھک ہار جائے اور اس کو سواری کو پالینے کی امید مایوسی میں بدل جائے تو اس کو اپنی موت یقینی نظر آتی ہے اور پھر اچانک سامان زندگی سمیت سواری مل جائے تو اسے نئی زندگی ملنے کی فرواں خوشی ہوتی ہے،
حتی کہ وہ فرط مسرت سے اپنے الفاظ پر بھی قابو نہیں رکھ سکتا اور آپے سے باہرہو کر،
اپنے رب کو اپنا بندہ بنا کر اس کا رب بن بیٹھتا ہے،
گویا کہ اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا ہے اور جب اللہ کا بندہ اس کی بندگی اور فرمانبرداری کی طرف لوٹتا ہے اور گناہ اور معصیت کی زندگی سے بچنے کا تہیہ کرلیتا ہے تو اللہ کو اس بے پایاں مسرت پانے والے بندے سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے۔
معلوم ہوتا ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی اپنے بندے کی توبہ سے مسرت اور شادمانی کا لحاظ مختلف مواقع پر کیا ہے اسی لیے موقع اور محل کے اعتبار سے اس کے بیان میں کچھ فرق واقع ہو گیا ہے،
اصل مقصود تو انسان کو توبہ پر آمادہ کرنا اور اس کی ترغیب دینا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6960