صحيح البخاري
كِتَاب الْجَنَائِزِ -- کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
70. بَابُ بِنَاءِ الْمَسْجِدِ عَلَى الْقَبْرِ:
باب: قبر پر مسجد تعمیر کرنا کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 1341
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ , قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , قَالَتْ:" لَمَّا اشْتَكَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَتْ بَعْضُ نِسَائِهِ كَنِيسَةً رَأَيْنَهَا بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ , يُقَالُ لَهَا: مَارِيَةُ، وَكَانَتْ أُمُّ سَلَمَةَ وَأُمُّ حَبِيبَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , أَتَتَا أَرْضَ الْحَبَشَةِ فَذَكَرَتَا مِنْ حُسْنِهَا وَتَصَاوِيرَ فِيهَا، فَرَفَعَ رَأْسَهُ , فَقَالَ: أُولَئِكِ إِذَا مَاتَ مِنْهُمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ، بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا , ثُمَّ صَوَّرُوا فِيهِ تِلْكَ الصُّورَةَ، أُولَئِكِ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللَّهِ".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ‘ کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام بن عروہ نے ‘ ان سے ان کے باپ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار پڑے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض بیویوں (ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور ام حبیبہ رضی اللہ عنہا) نے ایک گرجے کا ذکر کیا جسے انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھا جس کا نام ماریہ تھا۔ ام سلمہ اور ام حبیبہ رضی اللہ عنہا دونوں حبش کے ملک میں گئی تھیں۔ انہوں نے اس کی خوبصورتی اور اس میں رکھی ہوئی تصاویر کا بھی ذکر کیا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سر مبارک اٹھا کر فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان میں کوئی صالح شخص مر جاتا تو اس کی قبر پر مسجد تعمیر کر دیتے۔ پھر اس کی مورت اس میں رکھتے۔ اللہ کے نزدیک یہ لوگ ساری مخلوق میں برے ہیں۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 705  
´قبروں کو مساجد بنانے کی ممانعت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام المؤمنین ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم دونوں نے ایک کنیسہ (گرجا گھر) کا ذکر کیا جسے ان دونوں نے حبشہ میں دیکھا تھا، اس میں تصویریں تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ لوگ ایسے تھے کہ جب ان میں کا کوئی صالح آدمی مرتا تو یہ اس کی قبر کو سجدہ گاہ بنا لیتے، اور اس کی مورتیاں بنا کر رکھ لیتے، یہ لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدترین مخلوق ہوں گے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 705]
705 ۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت ام سلمہ اور ام حبیبہ رضی اللہ عنہا اپنے اپنے خاوندوں کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں میں شامل تھیں۔ وہ عیسائیوں کا ملک تھا۔
➋ نیک آدمی کی قبر پر مسجد بنا کر اس میں اس نیک آدمی اور دوسرے صالحین کی تصویریں بناتے تھے۔ مقصد تو تعظیم اور ان کی یاد ہوتی تھی مگر آہستہ آہستہ ان تصویروں کی پوجا شروع ہو جاتی تھی، اس لیے شریعت نے قبروں پر مسجدوں سے مطلقاً منع کر دیا کہ یہ شرک کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ اور واقعتاً جن قبروں پر یا ان کے قریب مساجد بنی ہوئی ہیں، ان قبروں کی پوجا ہوتی ہے، اسی لیے انہیں بدترین مخلوق کہا گیا۔
➌ صالحین سے مراد انبیاء کے حواری (اولین پیروکار) یا علماء و رہبان ہیں کیونکہ عیسائی انہیں نبیوں کی طرح سمجھتے اور ان کی غیر مشروط اطاعت کرتے تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 705   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1341  
1341. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:جب نبی ﷺ بیمار ہوئے تو آپ کی بعض بیویوں نے ایک گرجے کا تذکرہ کیا جسے انھوں نے حبشہ کی سرزمین میں دیکھا تھا اور اسےماریہ کہا جا تا تھا۔حضرت اُم سلمہ ؓ اور حضرت اُم حبیبہ ؓ حبشہ گئی تھیں۔انھوں نے گرجے کی خوبصورتی اور اس میں رکھی ہوئی تصویر کا بھی آپ سے ذکر کیا۔ تو آپ نے سر مبارک اٹھایا اور فرمایا:یہ وہ لوگ ہیں جب ان میں کوئی نیک شخص مرجاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے، پھر اس میں یہ تصاویر بنا کر لگا دیتے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ لوگ تمام مخلوق سے بد ترین ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1341]
حدیث حاشیہ:
امام قسطلانی فرماتے ہیں:
قال القرطبي:
وإنما صوّر أوائلهم الصور ليتأنسوا بها، ويتذكروا أفعالهم الصالحة، فيجتهدون كاجتهادهم، ويعبدون الله عند قبورهم، ثم خلفهم قوم جهلوا مرادهم، ووسوس لهم الشيطان أن أسلافهم كانوا يعبدون هذه الصور، يعظمونها، فحذر النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- عن مثل ذلك، سدًّا للذريعة المؤدية إلى ذلك بقوله:
(أولئك)
بكسر الكاف وفتحها، ولأبي ذر:
وأولئك (شرار الخلق عند الله)
. وموضع الترجمة قوله:
بنوا على قبره مسجدًا، وهو مؤول على مذمة من اتخذ القبر مسجدًا، ومقتضاه التحريم. لا سيما وقد ثبت اللعن عليه۔
یعنی قرطبی نے کہا کہ بنواسرائیل نے شروع میں اپنے بزرگوں کے بت بنائے تاکہ ان سے انس حاصل کریں اور ان کے نیک کاموں کو یاد کر کرکے خود بھی ایسے ہی نیک کام کریں اور ان کی قبروں کے پاس بیٹھ کر عبادت الٰہی کریں۔
پیچھے اور بھی زیادہ جاہل لوگ پیدا ہوئے۔
جنہوں نے اس مقصد کو فراموش کردیا اور ان کو شیطان نے وسوسوں میں ڈالا کہ تمہارے اسلاف ان ہی مورتوں کو پوجتے تھے اور انہی کی تعظیم کرتے تھے۔
پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی شرک کا سدباب کرنے کے لیے سختی کے ساتھ ڈرایا اور فرمایا کہ اللہ کے نزدیک یہی لوگ بدترین مخلوق ہیں۔
اور ترجمۃ الباب لفظ حدیث بنو ا علی قبرہ مسجدا سے ثابت ہوتا ہے یعنی آنحضرت ﷺ نے اس شخص کی مذمت کی جو قبر کو مسجد بنالے۔
اس سے اس فعل کی حرمت بھی ثابت ہوتی ہے اور ایسا کرنے پر لعنت بھی دارد ہوئی ہے۔
حضرت نوع ؑ کی قوم نے بھی شروع شروع میں اسی طرح اپنے بزرگوں کے بت بنائے‘ بعد میں پھر ان بتوں ہی کو خدا کا درجہ دے دیاگیا۔
عموماً جملہ بت پرست اقوام کا یہی حال ہے۔
جب کہ وہ خود کہتے بھی ہیں کہ ﴿مَانَعبُدُهُم اِلاَّ لِیُقَرِّبُونَا إِلَی اللّٰہِ رُلفٰی﴾ (الزمر: 3)
یعنی ہم ان بتوں کو محض اس لیے پوجتے ہیں کہ یہ ہم کو اللہ سے قریب کردیں۔
باقی یہ معبود نہیں ہیں یہ تو ہمارے لیے وسیلہ ہیں۔
اللہ پاک نے مشرکین کے اس خیال باطل کی تردید میں قرآن کریم کا بیشتر حصہ نازل فرمایا۔
صد افسوس! کہ کسی نہ کسی شکل میں بہت سے مدعیان اسلام میں بھی اس قسم کا شرک داخل ہوگیا ہے۔
حالانکہ شرک اکبر ہویا اصغر اس کے مرتکب پر جنت ہمیشہ کے لیے حرام ہے۔
مگر اس صورت میں کہ وہ مرنے سے پہلے اس سے تائب ہوکر خالص خدا پرست بن جائے۔
اللہ پاک ہر قسم کے شرک سے بچائے۔
آمین
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1341