صحيح البخاري
كِتَاب الْجَنَائِزِ -- کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
71. بَابُ مَنْ يَدْخُلُ قَبْرَ الْمَرْأَةِ:
باب: عورت کی قبر میں کون اترے؟
حدیث نمبر: 1342
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا هِلَالُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ:" شَهِدْنَا بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ عَلَى الْقَبْرِ، فَرَأَيْتُ عَيْنَيْهِ تَدْمَعَانِ , فَقَالَ: هَلْ فِيكُمْ مِنْ أَحَدٍ لَمْ يُقَارِفْ اللَّيْلَةَ؟ , فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: أَنَا، قَالَ: فَانْزِلْ فِي قَبْرِهَا , فَنَزَلَ فِي قَبْرِهَا فَقَبَرَهَا"، قَالَ ابْنُ مُبَارَكٍ: قَالَ فُلَيْحٌ: أُرَاهُ يَعْنِي: الذَّنْبَ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: لِيَقْتَرِفُوا أَيْ لِيَكْتَسِبُوا.
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا ‘ ان سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا ‘ ان سے ہلال بن علی نے بیان کیا ‘ ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کے جنازہ میں حاضر تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبر پر بیٹھے ہوئے تھے ‘ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا ایسا آدمی بھی کوئی یہاں ہے جو آج رات کو عورت کے پاس نہ گیا ہو۔ اس پر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بولے کہ میں حاضر ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم قبر میں اتر جاؤ۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ اتر گئے اور میت کو دفن کیا۔ عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا کہ فلیح نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ «لم يقارف» کا معنی یہ ہے کہ جس نے گناہ نہ کیا ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ سورۃ الانعام میں جو «ليقترفوا‏» آیا ہے اس کا معنی یہی ہے تاکہ گناہ کریں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1342  
1342. حضرت انس ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:ہم رسول اللہ ﷺ کی لخت جگر کے جنازے میں شریک ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ قبر کے پاس تشریف فر تھے۔ میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ آپ نے فرمایا:تم میں سے کوئی شخص ایسا ہے جو آج رات اپنی بیوی سے ہم بستر نہ ہواہو؟ حضرت ابو طلحہ ؓ نے عرض کیا:میں ہوں۔ آپ نے فرمایا:تم قبر میں اترو۔ چنانچہ وہ صاحبزادی کی قبر میں اترے اور انھیں لحد میں رکھا۔ عبد اللہ بن مبارک اپنے شیخ فليح کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ لم يقارف کے معنیجس نے گناہ نہ کیا ہو ہیں۔ امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ ﴿لیقترفوا﴾ کے معنی ہیں۔تاکہ وہ گناہ کا کسب کریں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1342]
حدیث حاشیہ:
ایک بات عجیب مشہور ہوگئی ہے کہ موت کے بعد شوہر بیوی کے لیے ایک اجنبی اور عام آدمی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا، یہ انتہائی لغو اور غلط تصور ہے۔
اسلام میں شوہر اور بیوی کا تعلق اتنا معمولی نہیں کہ وہ مرنے کے بعد ختم ہوجائے اور مرد عورت کے لیے اجنبی بن جائے۔
پس عورت کے جنازے کو خود اس کا خاوند بھی اتار سکتا ہے اور حسب ضرورت دوسرے لوگ بھی، جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1342   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1342  
1342. حضرت انس ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:ہم رسول اللہ ﷺ کی لخت جگر کے جنازے میں شریک ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ قبر کے پاس تشریف فر تھے۔ میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ آپ نے فرمایا:تم میں سے کوئی شخص ایسا ہے جو آج رات اپنی بیوی سے ہم بستر نہ ہواہو؟ حضرت ابو طلحہ ؓ نے عرض کیا:میں ہوں۔ آپ نے فرمایا:تم قبر میں اترو۔ چنانچہ وہ صاحبزادی کی قبر میں اترے اور انھیں لحد میں رکھا۔ عبد اللہ بن مبارک اپنے شیخ فليح کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ لم يقارف کے معنیجس نے گناہ نہ کیا ہو ہیں۔ امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ ﴿لیقترفوا﴾ کے معنی ہیں۔تاکہ وہ گناہ کا کسب کریں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1342]
حدیث حاشیہ:
(1)
ہمارے ہاں یہ بات مشہور ہے کہ مرنے کے بعد بیوی خاوند کا رشتہ منقطع ہو جاتا ہے، حالانکہ اسلام میں بیوی خاوند کا رشتہ اتنا کمزور نہیں کہ مرنے کے بعد ختم ہو جائے اور مرد، عورت کے لیے اجنبی بن جائے، اس لیے عورت کی میت کو اس کا خاوند قبر میں اتار سکتا ہے، جیسا کہ حضرت فاطمہ ؓ کی میت کو خود حضرت علی ؓ نے لحد میں اتارا تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے خود بھی حضرت عائشہ ؓ سے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ اگر تو میری موجودگی میں فوت ہوئی تو میں تجھے غسل دوں گا اور دفن کروں گا۔
(مسند أحمد: 144/6) (2)
حسب ضرورت دوسرے اجنبی لوگ بھی قبر میں اتارنے کا فریضہ سرانجام دے سکتے ہیں۔
امام نووی ؒ فرماتے ہیں کہ مذکورہ حدیث ان احادیث میں سے ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ دفن کا فریضہ صرف مرد ادا کریں گے، خواہ میت عورت ہو (المجموع: 253/5،254، طبع دار إحیاءالتراث العربي)
کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے آج تک مسلمانوں کا اسی پر عمل ہے، نیز مرد اس عمل کے لیے زیادہ قوی اور حوصلہ مند ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ اگر خواتین ایسا کریں تو ان کے جسم کا کوئی حصہ اجنبی لوگوں کے سامنے ظاہر ہو سکتا ہے جو شرعا جائز نہیں۔
والله أعلم۔
(3)
امام ابن مبارک نے اپنے شیخ کے حوالے سے لم يقارف کے جو معنی بیان کیے ہیں وہ مرجوح ہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں حضرت ابو طلحہ ؓ کیونکر یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ میں نے آج رات کوئی گناہ نہیں کیا، اگرچہ اس معنی کی تائید میں امام بخاری ؒ نے قرآنی آیت کا حوالہ بھی پیش کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1342