صحيح مسلم
كِتَاب التَّوْبَةِ -- توبہ کا بیان
4. باب فِي سَعَةِ رَحْمَةِ اللَّهِ تَعَالَى وَأَنَّهَا سَبَقَتْ غَضَبَهُ:
باب: اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے۔
حدیث نمبر: 6980
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مَرْزُوقِ بْنِ بِنْتِ مَهْدِيِّ بْنِ مَيْمُونٍ حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " قَالَ رَجُلٌ: لَمْ يَعْمَلْ حَسَنَةً قَطُّ لِأَهْلِهِ إِذَا مَاتَ فَحَرِّقُوهُ ثُمَّ اذْرُوا نِصْفَهُ فِي الْبَرِّ، وَنِصْفَهُ فِي الْبَحْرِ، فَوَاللَّهِ لَئِنْ قَدَرَ اللَّهُ عَلَيْهِ لَيُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا لَا يُعَذِّبُهُ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِينَ، فَلَمَّا مَاتَ الرَّجُلُ فَعَلُوا مَا أَمَرَهُمْ، فَأَمَرَ اللَّهُ الْبَرَّ فَجَمَعَ مَا فِيهِ، وَأَمَرَ الْبَحْرَ فَجَمَعَ مَا فِيهِ، ثُمَّ قَالَ: لِمَ فَعَلْتَ هَذَا؟ قَالَ: مِنْ خَشْيَتِكَ يَا رَبِّ وَأَنْتَ أَعْلَمُ فَغَفَرَ اللَّهُ لَهُ ".
اعرج نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک آڈمی جس نے کبھی کوئی نیکی نہیں کی تھی، اپنے گھر والوں سے کہا: جب وہ مرے تو اسے جلا دیں، پھر اس کا آدھا حصہ (ۃواؤں میں اڑا کر) خشکی پر بکھیر دیں اور آدھا حصہ سمندر میں بہا دیں، کیونکہ اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے اسے قابو کر لیا تو اس کو ضرور بالضرور ایسا عذاب دے گا جو تمام جہانوں میں سے کسی کو نہیں دے گا، چنانچہ جب وہ آدمی مر گیا تو انہوں نے وہی کیا جس کا اس نے حکم دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے خشکی کو حکم دیا، اس شخص کا جو بھی حسہ اس (خشکی) میں تھا اس نے اس کو اکٹھا کر دیا اور سمندر کو حکم تو جو کچھ اس میں تھا اس نے اکٹھا کر دیا، پھر (اللہ نے) اس سے پوچھا: تم نے ایسا کیوں کیا تھا؟ اس نے کہا: میرے رب! تیرے ڈر سے (ایسا کیا تھا) اور تو سب سے زیادہ جاننے والا ہے (کہ میری بات سچ ہے) تو اللہ نے (اس سچی خشیت کی بنا پر) اسے بخش دیا۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ایک آدمی نے جس نے کبھی کوئی نیکی نہیں کی تھی، اپنے گھر والوں کو کہا، جب وہ مرجائے تو اسے جلا دینا، پھر اس کی آدھی راکھ خشکی اور آدھی راکھ سمندر میں بکھیر دینا، کیونکہ اللہ کی قسم!اگر اللہ نے اس پر گرفت کر سکا تو اسے اس قدر شدید عذاب دے گا۔ جو کائنات میں سے کسی کو نہیں دے گا تو جب وہ آدمی فوت ہو گیا، انھوں نے (گھر والوں نے)اس کے مشورہ پر عمل کیا، چنانچہ اللہ نے خشکی کو حکم دیا۔ اس نے اس میں بکھر ے ہوئے ذرات کو جمع کر دئیے اور سمندر کو حکم دیا۔اس نے اس میں جو ذرات تھے ان کو جمع کر ڈالا، پھر اللہ نے پوچھا، اے انسان!تونے یہ کام کیوں کیا؟ اس نے عرض کیا، اے میرے رب! تیری خشیت و ڈر کی وجہ سے اور تجھے خوب علم ہے، سو اللہ نے اسے بخش دیا۔"
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 226  
´عذاب قبر حق ہے`
«. . . 337- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: قال رجل لم يعمل حسنة قط لأهله: إذا هو مات فأحرقوه، ثم اذروا نصفه فى البر ونصفه فى البحر؛ فوالله، لئن قدر الله عليه ليعذبنه عذابا لا يعذبه أحدا من العالمين. فلما مات الرجل فعلوا ما أمرهم فأمر الله البر فجمع ما فيه، وأمر البحر فجمع ما فيه، ثم قال: لم فعلت هذا؟ فقال: من خشيتك يا رب، وأنت أعلم، قال: فغفر الله له. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک آدمی جس نے کبھی کوئی نیکی نہیں کی تھی، اپنے گھر والوں سے کہا: اگر وہ مر جائے تو اسے جلا دیں، پھر اس کی آدھی راکھ خشکی اور آدھی سمندر میں اڑا دیں کیونکہ اگر اللہ نے اس پر سختی (باز پرس) کی تو اسے ایسا عذاب دے گا جو اس نے اپنی مخلوقات میں سے کسی کو نہیں دیا۔ پھر جب وہ آدمی مر گیا تو انہوں نے وہی کیا جس کا اس نے حکم دیا تھا پھر اللہ نے خشکی کو حکم دیا تو اس نے اس آدمی کے ذرات اکٹھے کر لئے اور سمندر کو حکم دیا تو اس نے (بھی) اس آدمی کے ذرات اکٹھے کر لئے پھر اللہ نے فرمایا: تو نے یہ کیوں کیا ہے؟ تو اس نے کہا: اے رب! تو جانتا ہے کہ میں نے یہ تیرے ڈر کی وجہ سے کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اللہ نے اسے بخش دیا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 226]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 7506، ومسلم 2756، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اس روایت میں مذکورہ شخص نے اللہ تعالیٰ کی قدرت پر کوئی شک نہیں کیا تھا بلکہ یہ گمان کیا تھا کہ اس طریقے سے اللہ تعالیٰ اُس پر سختی نہیں کرے گا۔ دیکھئے [زاد المسير لابن الجوزي ص940، الانبياء: 87] اور [التمهيد 18/43]
➋ عذاب روح اور جسم دونوں کو ہوتا ہے۔
➌ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ قوانینِ قدرت کا محتاج نہیں بلکہ ہر چیز اسی کی محتاج ہے اور ہر چیز کو اُسی نے پیدا کیا ہے۔
➍ سچی توبہ سے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
➎ میت کو جلانا جائز نہیں ہے بلکہ اسے قبر میں دفن کرنا ضروری ہے۔
➏ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «کان رجل ممن کان قبلکم لم یعمل خیرًا قط إلا التوحید۔» تم سے پہلے ایک آدمی تھا جس نے توحید کے علاوہ نیکی کا کوئی کام نہیں کیا تھا۔ [مسند أحمد 2/304 ح8040 وسنده صحيح] پھر انہوں نے حدیثِ بالا کے مفہوم والی روایت بیان کی۔ معلوم ہوا کہ مذکورہ شخص موحد تھا لہٰذا یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اس نے قدرت میں شک کیا ہو۔
➐ موحد (توحید ماننے والا) آخرکار جنت میں جائے گا بشرطیکہ اسلام کے مناقض اُمور میں سے کسی بات کا ارتکاب نہ کرے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 337   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6980  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
یہ انسان مومن تھا اور اس کا خیال تھا،
میں نے کوئی نیکی نہیں کی،
حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اسے خوب مال و دولت سے نوزا تھا اور اولاد بھی دی تھی،
جس کے ساتھ وہ بہت اچھا سلوک کرتا تھا،
لیکن اپنے گناہوں کے مواخذہ کے خوف اور ڈر کی بنا پر ہوش و حواس پر قابو نہ رکھ سکا تھا،
اس لیے ایک غلط اور انتہائی ناگوار بات کہہ دی کہ اگر اللہ نے مجھ پر قابو پا لیا،
یا گرفت کر سکا تو وہ مجھے شدید عذاب دے گا،
چونکہ یہ بات خشیت کے غلبہ کی بنا پر کہی گئی تھی،
اس لیے اس کو معاف کر دیا گیا،
کیونکہ کامیابی اور کامرانی کامدار اور انحصار تو اللہ کے خوف و خشیت پر ہی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6980