صحيح مسلم
كِتَاب التَّوْبَةِ -- توبہ کا بیان
6. باب غَيْرَةِ اللَّهِ تَعَالَى وَتَحْرِيمِ الْفَوَاحِشِ:
باب: اللہ تعالیٰ کی غیرت کا بیان اور بےحیائی کے کاموں کی ممانعت۔
حدیث نمبر: 6991
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ عُثْمَانُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيْسَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ الْمَدْحُ مِنَ اللَّهِ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ مَدَحَ نَفْسَهُ، وَلَيْسَ أَحَدٌ أَغْيَرَ مِنَ اللَّهِ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ ".
جریر نے اعمش سے، انہوں نے ابووائل (شقیق) سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی نہیں جسے مدح (اس کی رحمت و عنایت کا اقرار اور اس پر اس کی تعریف) پسند ہو، اسی لیے اس نے خود اپنی مدح فرمائی ہے اور کوئی نہیں جو اللہ سے بڑھ کر غیرت مند ہو، اسی لیے اس نے بے حیائی کے تمام کام، ان میں سے جو ظاہر ہیں اور جو پوشیدہ ہیں، حرام کر دیے ہیں۔"
حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ سے زیادہ کسی کو تعریف پسندیدہ نہیں ہے، اسی وجہ سے اس نے خود اپنی تعریف کی ہے اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی باغیرت نہیں ہے۔ اسی وجہ سے اس نے بے حیائیوں سے روکا ہے، ان کو حرام قراردیا ہے۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7403  
´اللہ تعالیٰ کا (سورۃ آل عمران میں) ارشاد اور اللہ اپنی ذات سے تمہیں ڈراتا ہے`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَا مِنْ أَحَدٍ أَغْيَرُ مِنَ اللَّهِ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ، وَمَا أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ الْمَدْحُ مِنَ اللَّهِ . . .»
. . . عبداللہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی بھی اللہ سے زیادہ غیرت مند نہیں اور اسی لیے اس نے فواحش کو حرام قرار دیا ہے اور اللہ سے زیادہ کوئی تعریف پسند کرنے والا نہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ: 7403]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7403 کا باب: «بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ}

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں جن آیات مبارکہ کا ذکر فرمایا ہے اس میں نفس کا ذکر ہے مگر تحت الباب جو حدیث سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں نفس کا کوئی ذکر نہیں ہے، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ اپنی عادت کے مطابق حدیث کے دوسرے طرق کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں اس میں نفس کے الفاظ موجود ہیں، بعض حضرات نے اپنی غفلت کے سبب کہا کہ:
«ليس فى الحديث ذكر النفس، و لعل البخاري أقام استعمال أحد مقام النفس.»
یعنی بعض حضرات نے کہا کہ حدیث میں لفظ ذکر نفس موجود نہیں ہے، شاید امام بخاری رحمہ اللہ لفظ «أحد» کو نفس کی جگہ استعمال فرما رہے ہوں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس بات کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
«وكل هذه غفلة عن مراد البخاري، فان ذكر النفس ثابت فى هذا الحديث الذى أورده، و ان كان لم يقع فى هذه الطريق لكنه أشار إلى ذالك كعادته، . . . . . و لذالك مدح نفسه، و هذا القدر هو المطابق للترجمة.» [فتح الباري لابن حجر: 234/14]
حدیث میں نفس کا ذکر نہیں ہے، شاید کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے لفظ «أحد» کو نفس کی جگہ استعمال فرمایا ہو۔

حافظ صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ سب کچھ غفلت پر مبنی ہے امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد کی بابت، پس نفس کا جو ذکر ہے وہ اس حدیث میں ثابت ہے جس کا ذکر اس حدیث میں نہیں کیا گیا، بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا ہے اپنی عادت کے مطابق دوسری حدیث کی طرف جس میں یہ الفاظ موجود ہیں: «كذالك مدح نفسه» پس یہیں سے مطابقت ہے باب سے حدیث کی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 318   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6991  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اللہ تعالیٰ اپنے مخلوقات کی مدح وثناء کا محتاج نہیں ہے اور نہ ہی اس کی مدح سے اسے کچھ مفاد حاصل ہوتا ہے اور نہ حمدو ثناء کے ترک سے اسے کچھ نقصان پہنچتا ہے،
لیکن اس کی تعریف و توصیف اور حمدو ثناء سے انسان کو اجرو ثواب ملتا ہے،
اس کے درجات و مراتب بلند ہوتے ہیں،
اس طرح اللہ تعالیٰ انسان کے درجات اور مراتب بلند کرنے کی خاطر اپنی مدح اور تعریف پسند کرتا ہے اس کی اپنی کوئی غرض یا مفاد اس سے وابستہ نہیں ہے۔
لیکن انسان یہ نہیں جانتا،
مجھے اس کی حمدو ثناء کن الفاظ سے کرنا چاہیے،
اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو سکھانے اور بتانے کے لیے اپنی خود تعریف بیان کی،
تاکہ انسان اس کے مطابق تعریف کرے،
اجرو ثواب حاصل کرے،
اس کے اندر گناہوں سے پرہیز کرنے کا جذبہ ابھرے اور اس کے حقوق و فرائض کوادا کرنے کا ملکہ پیدا ہو،
خیال رہے،
اللہ کی محبت اور غیرت اس کے شایان شان ہے،
انسان کی محبت اور غیرت جیسی نہیں ہے،
اس لیے یہ تاویل کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ان سے مراد ان کے نتائج اور ثمرات یا لوازم ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6991