صحيح مسلم
كِتَاب التَّوْبَةِ -- توبہ کا بیان
7. باب قَوْلِهِ تَعَالَى: {إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ}:
باب: اللہ تعالی کا فرمان: ”نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں“۔
حدیث نمبر: 7006
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْهُ عَلَيَّ، قَالَ: وَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ، فَصَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَصَبْتُ حَدًّا، فَأَقِمْ فِيَّ كِتَابَ اللَّهِ، قَالَ: هَلْ حَضَرْتَ الصَّلَاةَ مَعَنَا؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: " قَدْ غُفِرَ لَكَ ".
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی: اللہ کے رسول! میں نے حد (لگنے والے کام) کا ارتکاب کر لیا ہے، مجھ پر حد قائم کیجئے۔ (حضرت انس رضی اللہ عنہ نے) کہا: (تب) نماز کا وقت آ گیا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔جب نماز پڑھ لی تو کہنے لگا: اللہ کے رسول! میں نے حد (کے قابل گناہ) کا ارتکاب کیا ہے، میرے بارے میں اللہ کی کتاب کا (جو) فیصلہ (ہے اسے) نافذ فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تو ہمارے ساتھ نماز میں شامل ہوا؟" اس نے عرض کی: ہاں، فرمایا: "تیرا گناہ بخش دیا گیا ہے۔"
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے گناہ کا ارتکاب کیا ہے آپ مجھ پر حد قائم کریں اور نماز کا وقت ہو گیا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، جب اس نے نماز ادا کر لی کہا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے گناہ کیا ہے، مجھ پر اللہ کا قانون (حکم) جاری فرمائیں، آپ نے پوچھا،" کیا تو ہمارے ساتھ نماز میں موجود تھا؟" اس نے کہا جی ہاں آپ نے فرمایا:" تجھے بخشا جا چکا ہے۔"
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7006  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس پر علماء امت کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی انسان ایسے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے،
جس پر حد مقرر ہے اور وہ گناہ شہادت یا اقرار سے ثابت ہوتا ہے تو اس پر حد لگانا ضروری ہے،
لیکن اگر اللہ تعالیٰ اس گناہ کی پردہ پوشی فرماتا ہے اور گناہ گار بھی اس کا اعتراف نہیں کرتا تو وہ توبہ و استغفار سے معاف ہو جاتا ہے،
بعض روایات میں زنا کرنے کا ذکر ہے تا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے زناکے محرکات و دواعی یا اس کی پیش خیمہ کو زنا سمجھ لیا یا اس کے أصبحت حدا،
میں حد کو پہنچ گیا،
کہنے سے راوی نے،
زنا سمجھ لیا،
کیونکہ اگر اس نے صراحتا زنا کا اقرارواعتراف کرلیا تھا تو پھر اس سے وضاحت طلب کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ اصل صورتحال کیا ہے،
کیونکہ کبیرہ گناہ توبہ سے معاف ہو سکتا ہے،
محض نماز پڑھنے سے معاف نہیں ہو سکتا،
الایہ کہ نماز کی دعاؤں میں اللهم اغفرلی کو عام کر لیا جائے،
اس کو توبہ پر مشتمل مان لیا جائے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7006