صحيح مسلم
كِتَاب التَّوْبَةِ -- توبہ کا بیان
8. باب قَبُولِ تَوْبَةِ الْقَاتِلِ وَإِنْ كَثُرَ قَتْلُهُ:
باب: قاتل کی توبہ کا قبول ہونا خواہ اس نے زیادہ قتل کیے ہوں۔
حدیث نمبر: 7008
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي الصِّدِّيقِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " كَانَ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ رَجُلٌ قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ نَفْسًا، فَسَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ، فَدُلَّ عَلَى رَاهِبٍ فَأَتَاهُ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ نَفْسًا، فَهَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ؟، فَقَالَ: لَا، فَقَتَلَهُ، فَكَمَّلَ بِهِ مِائَةً، ثُمَّ سَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ، فَدُلَّ عَلَى رَجُلٍ عَالِمٍ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَتَلَ مِائَةَ نَفْسٍ، فَهَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ؟، فَقَالَ: نَعَمْ، وَمَنْ يَحُولُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ التَّوْبَةِ انْطَلِقْ إِلَى أَرْضِ كَذَا وَكَذَا، فَإِنَّ بِهَا أُنَاسًا يَعْبُدُونَ اللَّهَ فَاعْبُدِ اللَّهَ مَعَهُمْ، وَلَا تَرْجِعْ إِلَى أَرْضِكَ فَإِنَّهَا أَرْضُ سَوْءٍ، فَانْطَلَقَ حَتَّى إِذَا نَصَفَ الطَّرِيقَ أَتَاهُ الْمَوْتُ، فَاخْتَصَمَتْ فِيهِ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ وَمَلَائِكَةُ الْعَذَابِ، فَقَالَتْ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ: جَاءَ تَائِبًا مُقْبِلًا بِقَلْبِهِ إِلَى اللَّهِ، وَقَالَتْ مَلَائِكَةُ الْعَذَابِ: إِنَّهُ لَمْ يَعْمَلْ خَيْرًا قَطُّ، فَأَتَاهُمْ مَلَكٌ فِي صُورَةِ آدَمِيٍّ، فَجَعَلُوهُ بَيْنَهُمْ، فَقَالَ: قِيسُوا مَا بَيْنَ الْأَرْضَيْنِ، فَإِلَى أَيَّتِهِمَا كَانَ أَدْنَى فَهُوَ لَهُ، فَقَاسُوهُ فَوَجَدُوهُ أَدْنَى إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي أَرَادَ، فَقَبَضَتْهُ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ "، قَالَ قَتَادَةُ: فَقَالَ الْحَسَنُ: ذُكِرَ لَنَا أَنَّهُ لَمَّا أَتَاهُ الْمَوْتُ نَأَى بِصَدْرِهِ.
ہشام نے قتادہ سے، انہوں نے ابوصدیق سے اور انہوں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک شخص تھا اس نے ننانوے قتل کیے، پھر اس نے زمین پر بسنے والوں میں سے سب سے بڑے عالم کے بارے میں پوچھا (کہ وہ کون ہے۔) اسے ایک راہب کا پتہ بتایا گیا۔ وہ اس کے پاس آیا اور پوچھا کہ اس نے ننانوے قتل کیے ہیں، کیا اس کے لیے توبہ (کی کوئی سبیل) ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ تو اس نے اسے بھی قتل کر دیا اور اس (کے قتل) سے سو قتل پورے کر لیے۔ اس نے پھر اہل زمین میں سے سب سے بڑے عالم کے بارے میں دریافت کیا۔ اسے ایک عالم کا پتہ بتایا گیا۔ تو اس نے (جا کر) کہا: اس نے سو قتل کیے ہیں، کیا اس کے لیے توبہ (کا امکان) ہے؟ اس (عالم) نے کہا: ہاں، اس کے اور توبہ کے درمیان کون حائل ہو سکتا ہے؟ تم فلاں فلاں سرزمین پر چلے جاؤ، وہاں (ایسے) لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں، تم بھی ان کے ساتھ اللہ کی عبادت میں مشغول ہو جاؤ اور اپنی سرزمین پر واپس نہ آو، یہ بُری (باتوں سے بھری ہوئی) سرزمین ہے۔ وہ چل پڑا، یہاں تک کہ جب آدھا راستہ طے کر لیا تو اسے موت آ لیا۔ اس کے بارے میں رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے جھگڑنے لگے۔ رحمت کے فرشتوں نے کہا: یہ شخص توبہ کرتا ہوا اپنے دل کو اللہ کی طرف متوجہ کر کے آیا تھا اور عذاب کے فرشتوں نے کہا: اس نے کبھی نیکی کا کوئی کام نہیں کیا۔ تو ایک فرشتہ آدمی کے روپ میں ان کے پاس آیا، انہوں نے اسے اپنے درمیان (ثالث) مقرر کر لیا۔ اس نے کہا: دونوں زمینوں کے درمیان فاصلہ ماپ لو، وہ دونوں میں سے جس زمین کے زیادہ قریب ہو تو وہ اسی (زمین کے لوگوں) میں سے ہو گا۔ انہوں نے مسافت کو ماپا تو اسے اس زمین کے قریب تر پایا جس کی طرف وہ جا رہا تھا، چنانچہ رحمت کے فرشتوں نے اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔" قتادہ نے کہا: حسن (بصری) نے کہا: (اس حدیث میں) ہمیں بتایا گیا کہ جب اسے موت نے آ لیا تھا تو اس نے اپنے سینے سے (گھسیٹ کر) خود کو (گناہوں بھری زمین سے) دور کر لیا تھا۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" تم سے پہلی امت میں ایک آدمی تھا، اس نے ننانوے آدمی قتل کر ڈالے، پھر اس نے(لوگوں سے) زمین کے سب سے بڑے عالم کے بارے میں دریافت کیا تو اس کو ایک راہب کا پتہ بتادیا گیا، چنانچہ وہ اس کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا صورت حال یہ ہے وہ ننانوے آدمیوں کو قتل کر چکا ہے کیا اب اس کے لیے توبہ کی گنجائش ہے؟ راہب نے کہا، نہیں، اس نے اس کو بھی قتل کر ڈالا اور اس کے سمیت سو پورے کر دئیے، پھر اس نے زمین کے سب سے بڑے عالم کے بارے میں دریافت کیا تو (لوگوں نے) اس کو ایک عالم آدمی کا پتہ بتلایا،(وہ اس کے پاس گیا) اور پوچھا وہ سو آدمیوں کا قتل کر چکا ہے، کیا اس کے لیے توبہ کا امکان ہے؟ تو اس نے کہا، ہاں، اس کے اور توبہ کے درمیان کون حائل ہو سکتا ہے؟ تم فلاں فلاں بستی کی طرف چلے جاؤ کیونکہ وہاں ایسے لوگ ہیں، جو اللہ کی بندگی کرتے ہیں، تم بھی ان کے ساتھ، رہ کر اللہ کی بندگی میں مشغول ہو جاؤ اور اپنی سر زمین (علاقہ) کی طرف مت لوٹو، کیونکہ وہ بری سر زمین ہے تو وہ چل پڑا، حتی کہ جب اس نے آدھا راستہ طے کرلیا، اسے موت نے آلیا، چنانچہ اس کے بارے میں یعنی اس کی روح لینے کے سلسلے میں رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں میں جھگڑا ہو گیا، رحمت کے فرشتوں نے کہا، یہ دل سے متوجہ ہو کر،توبہ کرتے ہوئے اللہ کی طرف بڑھا اور عذاب کے فرشتوں نے کہا، واقعہ یہ ہے،اس نے کبھی نیکی کا کام نہیں کیا، (اس لیے یہ نیک اور رحمت کا مستحق کیسے بنا) چنانچہ ان کے پاس (اللہ کےحکم سے) ایک فرشتہ انسانی شکل میں آیا، دونوں قسم کے فرشتوں نے (اپنے جھگڑنے کا) حکم مان لیا تو اس نے(انسان ن فرشتے نے) کہا، دونوں زمینوں (گناہ کی بستی اور عبادت گزار بندوں کی بستی) کے درمیانی علاقہ کی پیمائش کر لو تو جس بستی کی طرف زیادہ قریب ہو تو وہ اس کا باشندہ ہو گا تو انھوں نے پیمائش کی تو اسے اس علاقہ کے زیادہ قریب پایا، جس کے ارادے سے وہ جا رہا تھا، اس لیے اس کی روح کو رحمت کے فرشتوں نے اپنے قبضہ میں لیا۔"حسن رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں ہمیں بتایا گیا، اسے جب موت نے آلیا وہ اپنے سینہ سے آگے کی طرف بڑھا۔"
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7008  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
یہ قاتل،
بنو اسرائیل کا ایک فرد تھا،
مسئلہ پوچھنے کے لیے پہلے ایک راہب کے پاس گیا جس پر اللہ کی ہیبت و جلال کا غلبہ تھا اور وہ گناہ کو انتہائی ناگوار سمجھتا تھا،
اس نے محض گناہ کی قباحت کو ملحوظ رکھا اور توبہ کی اللہ کے ہاں مقبولیت اور محبوبیت کو سامنے نہ رکھا اور موقع و محل کی حکمت ومصلحت کو بھی نہ سمجھ سکا،
اس لیے اس نے کہہ دیا،
تیری توبہ کی گنجائش نہیں ہے،
اسنے مایوس ہو کر اسکو بھی قتل کر ڈالا،
لیکن چونکہ وہ دل کی گہرائی سے توبہ پر آمادہ ہو چکا تھا،
اس لیے دل کی بے قراراور بے چینی کی بنا پر،
پھر یہ جاننے کی کوشش کی کہ میری توبہ کی کوئی صورت نکل سکتی ہے،
یانہیں،
اس لیے پھر وہ ایک عالم جو صاحب بصیرت تھا،
اس کی خدمت میں حاضر ہوا،
اس نے اس کو توبہ کی صورت بتائی کہ جس بستی میں رہ کر برے لوگوں کی محبت ورفاقت کی بنا پر تم نے یہ قتل کیے ہیں،
اس بستی اور باشندوں سے کنارہ کش ہو جاؤ،
وگرنہ توبہ پر قائم نہیں رہ سکو گے اور اس بستی میں چلے جاؤ،
جس کے بندے اللہ کے عبادت گزار اور فرمانبردار ہیں،
تاکہ ان کی رفاقت میں رہ کر نیک اور اچھے کام کر سکو،
چونکہ وہ تہہ دل سے اس گناہ سے توبہ کرنے کا تہیہ کر چکا تھا اور اپنے عمل سے اس نے اس کا ثبوت فراہم کیا اور وہ مرتے مرتے بھی،
نیک لوگوں کی بستی کی طرف بڑھا اور اپنےبس کی حد تک اس نے اپنی توبہ کو توبة النصوح بنا ڈالا،
اس لیے اس کے اس فعل کو اس کی کامیابی کا سبب بنا ڈالا گیا،
اگرچہ یہ واقعہ بنو اسرائیل کا ہے،
لیکن جمہور امت نے قرآن و سنت کے اصولوں کی روشنی میں اس کو قبول کیا ہے کہ قاتل اگر تہہ دل سے توبہ کر لے تو اس کی توبہ قبول ہو جائے گی اور اگرچہ اس کا تعلق حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق سے ہے،
جو صاحب حق کے معاف کیے بغیر معاف نہیں ہوسکتے،
لیکن اگر گناہ گار کے پاس،
بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی کوئی صورت نہ ہوتو وہ سچی اور پکی توبہ کرے اور اللہ سے درخواست کرے،
یا اللہ،
میرے پاس تو ان کے حقوق کی ادائیگی کی کوئی صورت نہیں تو ہی اپنی طرف سے انہیں اجرو صلہ عطا کر کے،
ان کو راضی کر دینا تو اللہ ان کو راضی کر دے گا،
لیکن اگر وہ بندوں کا حق ادا کر سکتا ہے،
یا ان سے معافی مانگ سکتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ حق ادا نہیں کرتا،
یا معافی طلب نہیں کرتا تو پھر یہ توبہ سچی اور نصوح نہیں ہوگی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7008