صحيح مسلم
كِتَاب التَّوْبَةِ -- توبہ کا بیان
8. باب قَبُولِ تَوْبَةِ الْقَاتِلِ وَإِنْ كَثُرَ قَتْلُهُ:
باب: قاتل کی توبہ کا قبول ہونا خواہ اس نے زیادہ قتل کیے ہوں۔
حدیث نمبر: 7009
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا الصِّدِّيقِ النَّاجِيَّ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّ رَجُلًا قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ نَفْسًا، فَجَعَلَ يَسْأَلُ هَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ؟، فَأَتَى رَاهِبًا فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: لَيْسَتْ لَكَ تَوْبَةٌ، فَقَتَلَ الرَّاهِبَ، ثُمَّ جَعَلَ يَسْأَلُ ثُمَّ خَرَجَ مِنْ قَرْيَةٍ إِلَى قَرْيَةٍ فِيهَا قَوْمٌ صَالِحُونَ، فَلَمَّا كَانَ فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ أَدْرَكَهُ الْمَوْتُ، فَنَأَى بِصَدْرِهِ ثُمَّ مَاتَ، فَاخْتَصَمَتْ فِيهِ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ وَمَلَائِكَةُ الْعَذَابِ، فَكَانَ إِلَى الْقَرْيَةِ الصَّالِحَةِ أَقْرَبَ مِنْهَا بِشِبْرٍ، فَجُعِلَ مِنْ أَهْلِهَا "،
معاذ بن عنبری نے کہا: ہمیں شعبہ نے قتادہ سے حدیث سنائی، انہوں نے ابو صدیق ناجی سے سنا، انہوں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی: "ایک شخص نے ننانوے انسان قتل کیے، پھر اس نے یہ پوچھنا شروع کر دیا: کیا اس کی توبہ (کی کوئی سبیل) ہو سکتی ہے؟ وہ ایک راہب کے پاس آیا، اس سے پوچھا تو اس نے جواب دیا: تیرے لیے کوئی توبہ نہیں۔ اس نے اس راہب کو (بھی) قتل کر دیا۔ اس کے بعد اس نے پھر سے (توبہ کے متعلق) پوچھنا شروع کر دیا، پھر ایک بستی سے (دوسری) بستی کی طرف نکل پڑا جس میں نیک لوگ رہتے تھے۔ وہ راستے کے کسی حصے میں تھا کہ اسے موت نے آن لیا، وہ (اس وقت) اپنے سینے کے ذریعے سے (پچھلی گناہوں بھری بستی سے) دور ہوا، پھر مر گیا۔ تو اس کے بارے میں رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں نے آپس میں جھگڑا کیا۔ تو وہ شخص ایک بالشت برابر نیک بستی کی طرف قریب تھا، اسے اس بستی کے لوگوں میں سے (شمار) کر لیا گیا۔"
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتےہیں ایک آدمی نے ننانوے آدمی قتل کر ڈالے پھر پوچھنے لگا، کیا اس کی توبہ کی کوئی گنجائش ہے؟ چنانچہ وہ ایک راہب کے پاس آیا اور اس سے پوچھا اس نے جواب دیا۔ تیرے لیے توبہ کا امکان نہیں ہے تو اس نے راہب کو بھی قتل کر دیا۔ پھر پوچھنے لگا پھر وہ اپنی بستی سے اس بستی کی طرف نکل کھڑا ہوا۔ جس میں نیک لوگ رہتے تھے تو جب اس نے کچھ راستہ طے کر لیا اسے موت نے آلیا سو وہ اپنے سینے سے آگے بڑھا،پھر مر گیا تو اس کے بارے میں رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں میں جھگڑا شروع ہو گیا تو وہ اچھی بستی کی طرف ایک بالشت زیادہ قریب تھا، اس لیے اس کو اس کے باشندوں میں سے شمار کیا گیا۔"