صحيح مسلم
كِتَاب التَّوْبَةِ -- توبہ کا بیان
9ق. باب فِي سِعَةِ رَحْمَةِ اللهِ تَعَالٰي عَلَي الْمُؤْمِنِينَ ، وَفِدَاءِ كُلِّ مُسْلِمِ بِكَافِرٍ مِّنَ النَّارِ
باب: مومنوں پر اللہ کی رحمت کی وسعت اور دوزخ سے نجات کے لیے ہر مسلمان کے عوض ایک کافر کا فدیہ۔
حدیث نمبر: 7015
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتَوَائِيِّ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِابْنِ عُمَرَ : كَيْفَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي النَّجْوَى؟، قَالَ: سَمِعْتُهُ، يَقُولُ: " يُدْنَى الْمُؤْمِنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ حَتَّى يَضَعَ عَلَيْهِ كَنَفَهُ، فَيُقَرِّرُهُ بِذُنُوبِهِ، فَيَقُولُ: هَلْ تَعْرِفُ؟، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ أَعْرِفُ، قَالَ: فَإِنِّي قَدْ سَتَرْتُهَا عَلَيْكَ فِي الدُّنْيَا، وَإِنِّي أَغْفِرُهَا لَكَ الْيَوْمَ، فَيُعْطَى صَحِيفَةَ حَسَنَاتِهِ، وَأَمَّا الْكُفَّارُ وَالْمُنَافِقُونَ، فَيُنَادَى بِهِمْ عَلَى رُءُوسِ الْخَلَائِقِ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى اللَّهِ ".
قتادہ نے صفوان بن محرز سے روایت کی کہ ایک شخص نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نجویٰ (مومن سے اللہ کی سرگوشی) کے متعلق کس طرح سنا تھا؟ انہوں نے کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: " مومن کو قیامت کے دن اس کے رب عزوجل کے قریب کیا جائے گا، حتی کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنا پردہ ڈال دے گا (تاکہ کوئی اور اس کے راز پر مطلع نہ ہو)، پھر اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کرائے گا اور فرمائے گا: کیا تو (ان سب گناہوں کو) پہچانتا ہے؟ وہ کہے گا: میرے رب! میں (ان سب گناہوں کو) پہچانتا ہوں۔ (اللہ تعالیٰ) فرمائے گا: میں نے دنیا میں تم پر (رحم کرتے ہوئے) ان گناہوں کو چھپا لیا تھا اور آج (تم پر رحم کرتے ہوئے) تمہارے لیے ان سب کو معاف کرتا ہوں، پھر اسے (محض) اس کی نیکیوں کا صحیفہ پکڑا دیا جائے گا اور رہے کفار اور منافقین تو ساری مخلوقات کے سامنے بلند آواز سے انہیں کہا جائے گا: یہی ہیں جنہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا۔"
صفوان بن محرز رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا نجوی (سر گوشی) کے بارے میں،آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا فرماتے ہوئے سنا ہے؟ انھوں نے کہا میں نے آپ کو یہ فرماتے سنا ہے۔"قیامت کے دن مومن کو اپنے رب عزوجل کے قریب کیا جائے گا حتی کہ وہ اس پر اپنا پہلو جو اس کے شایان شان ہے رکھے گا، یعنی دوسروں سے اوٹ میں کر لے گا اور اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کروائے گا، سو فرمائے گا، کیا پہچانتے ہو؟ وہ کہے گا۔ ہاں میرے رب! میں پہچانتا ہوں اللہ فرمائے گا، دنیا میں میں تیری پردہ پوشی کر چکا ہوں اور آج میں تمھیں یہ گناہ بخش دیتا ہوں، چنانچہ اسے اس کی نیکیوں کا اعمال نامہ دے دیا جائے گا، رہے کافر اور منافق تو ان کے بارے میں تمام لوگوں کے سامنے اعلان کر دیا جائے گا، یہی لوگ ہیں۔ جنہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا تھا۔"
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث183  
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔`
صفوان بن محرز مازنی کہتے ہیں: اس اثناء میں کہ ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ہمراہ تھے، اور وہ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے، اچانک ایک شخص سامنے آیا، اور اس نے کہا: ابن عمر! آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے «نجویٰ» (یعنی اللہ کا اپنے بندے سے قیامت کے دن سرگوشی کرنے) کے بارے میں کیا سنا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: مومن اپنے رب سے قیامت کے دن قریب کیا جائے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنا پردہ ڈال دے گا، (تاکہ اس سرگوشی سے دوسرے باخبر نہ ہو سکیں)، پھر اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 183]
اردو حاشہ:
(1)
اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کی صفت کلام کا ثبوت ملتا ہے۔
اہل سنت کا اس مسئلہ میں یہ موقف ہے کہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے، جس سے چاہتا ہے، جو چاہتا ہے، کلام فرماتا ہے اور مخاطب اس کلام کو سنتا ہے اور یہ امر حروف و اصوات کے بغیر ممکن نہیں جیسا کہ آگے وضاحت آ رہی ہے۔
جن آیات و احادیث میں اللہ کے کلام کرنے کا ذکر آیا ہے، علمائے حق ان کی تاویل نہیں کرتے، بلکہ اسے حقیقت پر محمول کرتے ہیں، البتہ اللہ کی صفت کلام کو مخلوق کے کلام سے تشبیہ نہیں دیتے۔

(2)
اللہ کا کلام اس انداز سے بھی ہو سکتا ہے کہ صرف ایک فرد سنے، جیسے اس حدیث میں ہے، اسی لیے اسے سرگوشی فرمایا گیا ہے یا جس طرح موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہے ﴿وَقَرَّبْنٰهُ نَجِيًّا﴾ (مریم: 56)
 ہم نے اسے سرگوشی کے لیے اپنا قرب بخشا۔
اور اس انداز سے بھی ہو سکتا ہے کہ زیادہ افراد سنیں، جیسے جنت میں اللہ تعالیٰ تمام مومنین سے فرمائے گا کہ میں آئندہ کبھی تم سے ناراض نہیں ہوں گا۔

(3)
اس میں اللہ کی عظیم رحمت کا تذکرہ ہے، جس کی وجہ سے مومن اللہ سے مغفرت کی امید رکھتے ہیں، نیز مجرموں کی رسوائی بھی مذکور ہے جس کی وجہ سے مومن اللہ سے ڈرتے ہیں کیونکہ ایمان میں امید اور خوف دونوں شامل ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 183   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7015  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں،
گناہ گار مسلمان دو قسم کے ہیں:
(1)
وہ مسلمان جن کے گناہوں کا تعلق اللہ کے حقوق سے ہے،
ان کی دو قسمیں ہیں۔
(الف)
جن کے گناہ کو اللہ نے دنیا میں چھپایا،
ان کے گناہوں کی آخرت میں بھی پردہ پوشی ہوگی۔
(ب)
جن کے گناہ دنیا میں لوگوں کے سامنے عیاں ہو گئے،
ان کی پردہ پوشی نہیں ہو گی۔
(2)
وہ مسلمان جن کے گناہوں کا تعلق حقوق العباد سے ہے،
ان کی بھی دو قسمیں ہیں۔
(الف)
ان کی برائیاں،
نیکیوں سے زیادہ ہوں گی،
یہ آگ میں جائیں گے،
پھر سزا بھگت کر یا سفارش سے دوزخ سے نکال لیے جائیں گے۔
(ب)
وہ مسلمان جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی،
یہ ایک دوسرے کو بدلہ دے کر،
جنت میں چلے جائیں گے۔
(تکملہ ج (6)
ص (40)
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7015