صحيح مسلم
كِتَاب صِفَاتِ الْمُنَافِقِينَ وَأَحْكَامِهِمْ -- منافقین کی صفات اور ان کے بارے میں احکام
1. باب صِفَّاتِ الْمُنَافِقِينَ وَأَحْكَامِهِمْ
باب: منافقین کی صفات اور ان کے بارے میں احکام۔
حدیث نمبر: 7024
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، أَنَّهُ سَمِعَ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ ، يَقُولُ: " خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ أَصَابَ النَّاسَ فِيهِ شِدَّةٌ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ لِأَصْحَابِهِ: لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِهِ، قَالَ زُهَيْرٌ: وَهِيَ قِرَاءَةُ مَنْ خَفَضَ حَوْلَهُ، وَقَالَ: لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ، قَالَ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرْتُهُ بِذَلِكَ، فَأَرْسَلَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ فَسَأَلَهُ فَاجْتَهَدَ يَمِينَهُ مَا فَعَلَ، فَقَالَ: كَذَبَ زَيْدٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَوَقَعَ فِي نَفْسِي مِمَّا قَالُوهُ شِدَّةٌ حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ تَصْدِيقِي إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ سورة المنافقون آية 1، قَالَ: ثُمَّ دَعَاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَسْتَغْفِرَ لَهُمْ، قَالَ: فَلَوَّوْا رُءُوسَهُمْ، وقَوْله كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُسَنَّدَةٌ سورة المنافقون آية 4، وَقَالَ: كَانُوا رِجَالًا أَجْمَلَ شَيْءٍ ".
) ہمیں زہیر بن معاویہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں ابواسحٰق نے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں نکلے، اس میں لوگوں کو بہت تکلیف پہنچی تو عبداللہ بن ابی نے اپنے ساتھیوں سے کہا: جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں، جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ نہ ہو جائیں، ان پر کچھ خرچ نہ کرو (مہاجرین سے تعاون بند کر دو۔) زہیر نے کہا: اور یہ اس کی قراءت ہے جس نے حولہ کو زیر کے ساتھ من حولہ پڑھا۔ اور اس نے (یہ بھی) کہا: اگر ہم مدینہ کو لوٹ گئے تو جو عزت والے ہیں وہ وہاں سے ذلت والوں کو نکال دیں گے۔ (زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے) کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور آپ کو یہ بات بتا دی، آپ نے عبداللہ بن اُبی کو بلوایا اور اس سے (اس بات کے متعلق) پوچھا، اس نے بہت پکی قسم کھائی کہ اس نے ایسا نہیں کہا اور کہا: زید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جھوٹ بولا ہے۔ (حضرت زید رضی اللہ عنہ نے) کہا: میرے دل کو ان لوگوں کی اس بات سے بہت تکلیف پہنچی، حتی کہ اللہ تعالیٰ نے میری تصدیق میں یہ آیت نازل کی: "جب آپ کے پاس منافقین آتے ہیں" پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے استغفار کے لیے ان کو بلوایا تو انہوں نے (تمسخر سے) اپنے سر ٹیڑھے کر لیے۔" اور (اس آیت میں) اللہ تعالیٰ کے قول: "گویا وہ سہارے سے کھڑے ہوئے شہتیر ہیں" (سے مراد) حضرت زید رضی اللہ عنہ نے کہا: (یہ ہے کہ) یہ لوگ (جسمانی اعتبار سے سیدھے، لمبے اور دیکھنے میں) بہت خوبصورت تھے۔
حضرت زید بن راقم بیان کرتے ہیں ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اس میں لوگوں کو بہت تکلیف پہنچی تو عبد اللہ بن ابی نے اپنے ساتھیوں سے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں پر اس وقت تک کچھ خرچ نہ کرے۔ جب تک وہ اس سے الگ نہ ہو جائیں زہیر کہتے ہیں جو لوگ "حَوَلَه"پر زیرپڑھتے ہیں وہ اس سے پہلے من کا اضافہ کرتے ہیں اور اس (عبد اللہ بن ابی)نے کہا اگر ہم مدینہ لوٹ گئے تو عزت والے اس سے ذلت والوں کو نکال دیں گے، حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر، آپ کو یہ بات بتادی، آپ نے عبد اللہ بن ابی کو بلوایا اور اس سے پوچھا اس نے زور دار قسم کھائی کہ اس نے یہ کام نہیں کیا اور کہا زید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھوٹ بولا ہے چنانچہ لوگوں کی باتوں سے میرے دل میں بہت رنج ہوا حتی کہ اللہ تعالیٰ نے میری تصدیق میں سورہ منافقون کی یہ آیات اتاریں، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلویا تاکہ ان کے لیے مغفرت طلب فرمائیں تو انھوں نے اپنے سر جھٹک دئیے اللہ نے ان کے بارے میں فرمایا:"گویا وہ دیواروں کے ساتھ لگی لکڑیاں ہیں،(ان کا کردار انسانوں والا نہیں ہے) حالانکہ وہ خوبصورت انسان تھے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3314  
´سورۃ منافقین سے بعض آیات کی تفسیر۔`
حکم بن عیینہ کہتے ہیں کہ میں محمد بن کعب قرظی کو چالیس سال سے زید بن ارقم رضی الله عنہ سے روایت کرتے سن رہا ہوں کہ غزوہ تبوک میں عبداللہ بن ابی نے کہا: اگر ہم مدینہ لوٹے تو عزت والے لوگ ذلت والوں کو مدینہ سے ضرور نکال باہر کریں گے، وہ کہتے ہیں: میں یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا، اور آپ کو یہ بات بتا دی (جب اس سے بازپرس ہوئی) تو وہ قسم کھا گیا کہ اس نے تو ایسی کوئی بات کہی ہی نہیں ہے، میری قوم نے مجھے ملامت کی، لوگوں نے کہا: تجھے اس طرح کی (جھوٹ) بات کہنے سے کیا ملا؟ میں گھر آ گیا، رنج و غم میں ڈوبا ہوا لیٹ گیا، پھر نب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3314]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
وہی لوگ تھے جو کہتے تھے ان لوگوں پر خرچ نہ کرو،
جو رسول اللہ ﷺ کے پاس ہیں یہاں تک کہ وہ منتشر ہو جائیں (المنافقون: 7)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3314   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7024  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
یہ غزوہ مصطلق کا واقعہ ہے،
جس میں ایک مہاجر اور ایک انصاری کا واقعہ پیش آیا تھا،
اس موقعہ پر عبداللہ بن ابی نے انتہائی قبیح اور نازیبا باتیں کی تھیں اور پھر قسمیں اٹھا کر ان سے مکرگیا تھا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7024