صحيح مسلم
كِتَاب صِفَاتِ الْمُنَافِقِينَ وَأَحْكَامِهِمْ -- منافقین کی صفات اور ان کے بارے میں احکام
1. باب صِفَّاتِ الْمُنَافِقِينَ وَأَحْكَامِهِمْ
باب: منافقین کی صفات اور ان کے بارے میں احکام۔
حدیث نمبر: 7028
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى وَهُوَ الْقَطَّانُ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ، وَزَادَ قَالَ: فَتَرَكَ الصَّلَاةَ عَلَيْهِمْ.
) یحییٰ قطان نے عبیداللہ (بن عمر بن حفص) سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح حدیث بیان کی اور مزید یہ کہا: چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر نماز جنازہ ترک کر دی۔
امام صاحب اپنے دواور اساتذہ سے مذکورہ بالا روایت کے ہم معنی روایت بیان کرتے ہیں، اس میں یہ اضافہ ہے، چنانچہ آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھنی ترک کر دی۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7028  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی ابن سلول کی خواہش اور اس کے بیٹے کی درخواست پر کیونکہ بیٹا خالص اور سچا مومن تھا،
اس کی تکریم اور اپنی وسعت ظرفی اور دفور رحمت و شفقت کی بنا پر،
کفن کے لیے اپنی قمیص دی،
لعاب مبارک اس کے منہ میں ڈالا اور اس کی نمز جنازہ پڑھائی،
آپ کے تاخیر سے پہنچنے کے سبب،
وہ اس کی قبر میں اتار چکے تھے،
آپ نے ایفائے وعدہ کرتے ہوئے اس کو قبر سے نکلوایا،
قمیص پہنائی،
لعاب دہن اس کے منہ میں ڈالا اور حضرت عمر کے روکنے کے باوجودنماز جنازہ پڑھائی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جواب دیا،
اے عمر:
مجھے استغفار سے منع نہیں کیا گیا،
اختیار دیا گیا ہے،
اب یہ اللہ کی مرضی ہے،
اسے معاف کرے یا نہ کرے،
لیکن میرے لیے تو یہ طرز عمل مناسب ہے،
جیسا کہ جن کے لیے کفر مقرر ہو چکا تھا اور انہوں نے دولت ایمان سے محروم رہنا تھا،
لیکن آپ ان کو انداز اروتبلیغ کرتے رہے،
چنانچہ آپ کے نماز جنازہ پڑھانے سے بہت سے منافق،
آپ کے وسعت اخلاق اور بلند ظرفی دیکھ کر مسلمان ہو گئے،
نیز بخاری شریف کی روایت میں یہ تصریح موجود ہے کہ اگر میں سمجھتا اس کومعافی مل سکتی ہے تو میں ستر سے بھی زائد دفعہ استغفار کرتا،
جس سے معلوم ہوتا ہے،
آپ بھی یہ سمجھتے تھے کہ میرا استغفار اس کے حق میں مفید نہیں ہے،
لیکن اسلام کے حق میں مفید ہے،
جیسا کے امام طبری نے لکھا ہے،
آپ نے فرمایا تھا،
میری قمیص اور میرا اس پر نماز پڑھنے سے اس کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا،
لیکن مجھے یہ امید ہے،
میرے اس طرز عمل سے اس کی قوم کےایک ہزار آدمی مسلمان ہوجائیں گے،
(جامع البیان،
ج (10)
ص 142۔
طبع بولوق(مطبع کبریٰ)
مصر)

۔
لیکن آخر کار وحی الٰہی کے ذریعہ صریح طور پر منافقین کا جنازہ پڑھنے اور ان کے کفن،
دفن میں حصہ لینے سے روک دیا گیا،
کیونکہ اس طرز عمل سے منافقین کی ہمت افزائی اور مومنوں کی دل شکستگی کا احتمال تھا،
اس لیے آپ نے اس کے بعد کسی منافق کے جنازہ کی نماز نہیں پڑھی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7028