صحيح البخاري
كِتَاب الْعِلْمِ -- کتاب: علم کے بیان میں
48. بَابُ مَنْ تَرَكَ بَعْضَ الاِخْتِيَارِ مَخَافَةَ أَنْ يَقْصُرَ فَهْمُ بَعْضِ النَّاسِ عَنْهُ فَيَقَعُوا فِي أَشَدَّ مِنْهُ:
باب: اس بارے میں کہ کوئی شخص بعض باتوں کو اس خوف سے چھوڑ دے کہ کہیں لوگ اپنی کم فہمی کی وجہ سے اس سے زیادہ سخت (یعنی ناجائز) باتوں میں مبتلا نہ ہو جائیں۔
حدیث نمبر: 126
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، قَالَ: قَالَ لِي ابْنُ الزُّبَيْرِ: كَانَتْ عَائِشَةُ تُسِرُّ إِلَيْكَ كَثِيرًا، فَمَا حَدَّثَتْكَ فِي الْكَعْبَةِ، قُلْتُ: قَالَتْ لِي: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عَائِشَةُ، لَوْلَا قَوْمُكِ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ، قَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: بِكُفْرٍ لَنَقَضْتُ الْكَعْبَةَ، فَجَعَلْتُ لَهَا بَابَيْنِ، بَابٌ يَدْخُلُ النَّاسُ وَبَابٌ يَخْرُجُونَ"، فَفَعَلَهُ ابْنُ الزُّبَيْرِ.
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے اسرائیل کے واسطے سے نقل کیا، انہوں نے ابواسحاق سے اسود کے واسطے سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا تم سے بہت باتیں چھپا کر کہتی تھیں، تو کیا تم سے کعبہ کے بارے میں بھی کچھ بیان کیا، میں نے کہا (ہاں) مجھ سے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک مرتبہ) ارشاد فرمایا تھا کہ اے عائشہ! اگر تیری قوم (دور جاہلیت کے ساتھ) قریب نہ ہوتی (بلکہ پرانی ہو گئی ہوتی) ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا یعنی زمانہ کفر کے ساتھ (قریب نہ ہوتی) تو میں کعبہ کو توڑ دیتا اور اس کے لیے دو دروازے بنا دیتا۔ ایک دروازے سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے دروازے سے باہر نکلتے، (بعد میں) ابن زبیر نے یہ کام کیا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 126  
´مصلحتاً کسی مستحب کام کو ترک کرنا`
«. . . قَالَ لِي ابْنُ الزُّبَيْرِ: كَانَتْ عَائِشَةُ تُسِرُّ إِلَيْكَ كَثِيرًا، فَمَا حَدَّثَتْكَ فِي الْكَعْبَةِ، قُلْتُ: قَالَتْ لِي: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا عَائِشَةُ، لَوْلَا قَوْمُكِ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ، قَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: بِكُفْرٍ لَنَقَضْتُ الْكَعْبَةَ، فَجَعَلْتُ لَهَا بَابَيْنِ، بَابٌ يَدْخُلُ النَّاسُ وَبَابٌ يَخْرُجُونَ "، فَفَعَلَهُ ابْنُ الزُّبَيْرِ . . .»
. . . مجھ سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا تم سے بہت باتیں چھپا کر کہتی تھیں، تو کیا تم سے کعبہ کے بارے میں بھی کچھ بیان کیا، میں نے کہا (ہاں) مجھ سے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک مرتبہ) ارشاد فرمایا تھا کہ اے عائشہ! اگر تیری قوم (دور جاہلیت کے ساتھ) قریب نہ ہوتی (بلکہ پرانی ہو گئی ہوتی) ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا یعنی زمانہ کفر کے ساتھ (قریب نہ ہوتی) تو میں کعبہ کو توڑ دیتا اور اس کے لیے دو دروازے بنا دیتا۔ ایک دروازے سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے دروازے سے باہر نکلتے، (بعد میں) ابن زبیر نے یہ کام کیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ مَنْ تَرَكَ بَعْضَ الاِخْتِيَارِ مَخَافَةَ أَنْ يَقْصُرَ فَهْمُ بَعْضِ النَّاسِ عَنْهُ فَيَقَعُوا فِي أَشَدَّ مِنْهُ: 126]

تشریح:
قریش چونکہ قریبی زمانہ میں مسلمان ہوئے تھے، اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احتیاطاً کعبہ کی نئی تعمیر کو ملتوی رکھا، حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے یہ حدیث سن کر کعبے کی دوبارہ تعمیر کی اور ا س میں دو دروازے ایک شرقی اور ایک غربی جانب نکال دئیے، لیکن حجاج نے پھر کعبہ کو توڑ کر اسی شکل پر قائم کر دیا۔ جس پر عہد جاہلیت سے چلا آ رہا تھا۔ اس باب کے تحت حدیث لانے کا حضرت امام کا منشا یہ ہے کہ ایک بڑی مصلحت کی خاطر کعبہ کا توڑنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ملتوی فرما دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر فتنہ و فساد پھیل جانے کا یا اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچ جانے کا اندیشہ ہو تو وہاں مصلحتاً کسی مستحب کام کو ترک بھی کیا جا سکتا ہے۔ سنت نبوی کا معاملہ الگ ہے۔ جب لوگ اسے بھول جائیں تو یقیناً اس سنت کے زندہ کرنے والوں کو سو شہیدوں کا ثواب ملتا ہے۔ جس طرح ہندوستانی مسلمان ایک مدت سے جہری نمازوں میں آمین بالجہر جیسی سنت نبوی کو بھولے ہوئے تھے کہ اکابر اہل حدیث نے ازسر نو اس سنت نبوی کو زندہ کیا اور کتنے لوگوں نے اس سنت کو رواج دینے میں بہت تکلیف برداشت کی، بہت سے نادانوں نے اس سنت نبوی کا مذاق اڑایا اور اس پر عمل کرنے والوں کے جانی دشمن ہو گئے، مگر ان بندگان مخلصین نے ایسے نادانوں کی باتوں کو نظر انداز کر کے سنت نبوی کو زندہ کیا، جس کے اثرمیں آج اکثر لوگ اس سنت سے واقف ہو چکے ہیں اور اب ہر جگہ اس پر عمل درآمد کیا جا سکتا ہے۔ پس ایسی سنتوں کا مصلحتاً ترک کرنا مناسب نہیں ہے۔ حدیث میں آیا ہے «من تمسك بسنتي عند فساد امتي فله اجر مائة» شہید جو کوئی فساد کے وقت میری سنت کو لازم پکڑے گا اس کو سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 126   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2955  
´طواف کعبہ حطیم سمیت کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حطیم کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ کعبہ ہی کا ایک حصہ ہے میں نے پوچھا: پھر لوگوں (کفار) نے اس کو داخل کیوں نہیں کیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے پاس خرچ نہیں رہ گیا تھا میں نے کہا: اس کا دروازہ اتنا اونچا کیوں رکھا کہ بغیر سیڑھی کے اس پر چڑھا نہیں جاتا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا تمہاری قوم کے لوگوں نے کیا تھا، تاکہ وہ جس کو چاہیں اندر جانے دیں اور جس کو چاہیں روک دیں، اور اگر تمہاری قوم کا زمانہ ابھی ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2955]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
خانہ کعبہ کی نئے سرے سے تعمیر رسول اللہ ﷺ کے منصب پر فائز ہونے سے پانچ سال پہلے کا واقعہ ہے۔

(2)
قریش میں زمانہ جاہلیت میں بھی حلال اور حرام کی تمیز موجود تھی لیکن عملی طور پر اس کا خیال بہت کم رکھا جاتا تھا۔
خانہ کعبہ کی تعمیر نو کے لیے قریش نے حلال مال خرچ کرنے کی شرط لگائی تھی لیکن حلال مال مکمل خانہ کعبہ کی تعمیر کے لیے کافی نہ ہوا تو انھوں نے حطیم والا حصہ تعمیر کے بغیر چھوڑدیا۔

(3)
مسجد کی تعمیر میں حلال کمائی سے حاصل کیا ہوا مال ہی خرچ کرنا چاہیے۔

(4)
حطیم چونکہ کعبہ کا حصہ ہے اس لیے طواف اس کے باہر سے کرنا چاہیےاگر کوئی شخص غلطی سے اس کے اندر سے گزرجائے تو وہ چکر شمار نہ کرے ورنہ طواف ناقص رہے گا۔

(5)
خانہ کعبہ کی عمارت کے بارے میں مولانا صفی الرحمن مبارک پوری ؒ نے جو تفصیلات بیان کی ہیں ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  خانہ کعبہ کی موجودہ بلندی پندرہ میٹر ہے۔
حجر اسود والی دیوار اور اس کے سامنے کی دیوار یعنی جنوبی اور شمالی دیواریں دس دس میٹر لمبی ہیں۔
حجر اسود مطاف کی زمین سے ڈیڑھ میٹر کی بلندی پر ہے۔
دروازہ زمین سے دو میٹر بلند ہے۔
چاروں طرف دیواروں کے ساتھ ساتھ ایک بڑھے ہوئے کرسی نما ضلعے کا گھیرا ہے۔
اسے شاذ ردان کہتے ہیں۔
اس کی اونچائی 35 سینٹی میٹر اور اوسط چوڑائی 30 سنٹی میٹر ہے۔
یہ بھی بیت اللہ کا حصہ ہے جسے قریش نے چھوڑدیا تھا۔ (الرحيق المختوم ص: 93)

(6)
بعض اوقات مصلحت کا خیال کرتے ہوئے افضل کام چھوڑ کر غیر افضل جائز کام کرلینا بہتر ہے۔
جب یہ خطرہ ہو کہ جائز کام کرنے سے کچھ نا مطلوب نتائج سامنے آئینگے جن کی تلافی مشکل ہوگی تو افضل کو ترک کیا جاسکتا ہے۔

(7)
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور حکومت میں کعبہ شریف کی تعمیر اس انداز سے کردی تھی جو رسول اللہﷺ کی خواہش تھی لیکن ان کی شہادت کے بعد کعبہ شریف کو دوبارہ پہلے انداز سے بنادیا گیا۔

(8)
۔
اگر کوئی شخص کعبہ کے اندر نماز پڑھنا چاہے تو اسے چاہیے کہ حطیم میں نماز پڑھ لے کیونکہ یہ خانہ کعبہ کا ایک حصہ ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2955   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 876  
´حطیم میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: میں چاہتی تھی کہ بیت اللہ میں داخل ہو کر اس میں نماز پڑھوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے حطیم ۱؎ کے اندر کر دیا اور فرمایا: اگر تم بیت اللہ کے اندر داخل ہونا چاہتی ہو تو حطیم میں نماز پڑھ لو، یہ بھی بیت اللہ کا ایک حصہ ہے، لیکن تمہاری قوم کے لوگوں نے کعبہ کی تعمیر کے وقت اسے چھوٹا کر دیا، اور اتنے حصہ کو بیت اللہ سے خارج کر دیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 876]
اردو حاشہ:
1؎:
حطیم کعبہ کے شمالی جانب ایک طرف کا چھوٹا ہوا حصہ ہے جو گول دائرے میں دیوار سے گھیر دیا گیا ہے،
یہ بھی بیت اللہ کا ایک حصہ ہے اس لیے طواف اس کے باہر سے کرنا چاہئے،
اگر کوئی طواف میں حطیم کو چھوڑ دے اور اُس کے اندر سے آئے تو طواف درست نہ ہو گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 876   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2028  
´حطیم میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میری خواہش تھی کہ میں بیت اللہ میں داخل ہو کر اس میں نماز پڑھوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے حطیم میں داخل کر دیا، اور فرمایا: جب تم بیت اللہ میں داخل ہونا چاہو تو حطیم کے اندر نماز پڑھ لیا کرو کیونکہ یہ بھی بیت اللہ ہی کا ایک ٹکڑا ہے، تمہاری قوم کے لوگوں نے جب کعبہ تعمیر کیا تو اسی پر اکتفا کیا تو لوگوں نے اسے بیت اللہ سے خارج ہی کر دیا ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 2028]
فوائد ومسائل:
رسول اللہ ﷺ کی عمر مبارک کا پینتیسواں سال تھا کہ قریش نے بیت اللہ کی خستہ عمارت کو از سر نو تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا اور عہد کیا کہ اس میں صرف حلال رقم ہی صرف کریں گے۔
رنڈی کی اجرت۔
سود کی دولت۔
اور کسی کا ناحق لیا ہوا مال استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
مگر حلال مال کی کمی پڑ گئی۔
تو انھوں نے شمال کی طرف سے کعبہ کی لمبائی تقریباً چھ ہاتھ کم کردی۔
یہی ٹکڑا حجر اور حطیم کہلاتا ہے۔
(الرحیق المختوم)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2028   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:126  
126. حضرت اسود سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھ سے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے فرمایا: حضرت عائشہ‬ ؓ ت‬جھ سے بہت راز کی باتیں فرمایا کرتی تھیں تو کعبے کے متعلق انہوں نے تجھ سے کیا حدیث بیان کی ہے؟ میں نے کہا: مجھ سے انہوں نے یہ کہا تھا: نبی ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! اگر تیری قوم کے لوگوں کا زمانہ قریب نہ ہوتا۔۔ ابن زبیر نے کہا: یعنی کفر (جاہلیت) کے قریب نہ ہوتا (نئے نئے اسلام میں داخل نہ ہوئے ہوتے)۔۔ تو میں کعبے کی اس تعمیر کو منہدم کر دیتا اور اس کے دو دروازے بنا دیتا: ایک سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے دروازے سے نکل جاتے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے (اپنے دورِ حکومت میں) ایسا ہی کر دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:126]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود علمائے کرام کو تنبیہ فرمانا ہے کہ ان حضرات کو عوام کے سامنے ہراس جائز عمل سے اجتناب کرنا چاہیے جس سے غلط فہمی کا اندیشہ ہو ممکن ہے کہ جس عمل کو جائز اور مستحب خیال کر کے کیا جارہا ہو، وہ مصلحت عامہ کے خلاف ہو اور اس عمل کے اختیار کرنے میں بجائے فائدے کے نقصان ہو، وہ علماء سے متنفر ہو جائیں اور ان کے قریب آنے کے بجائے ان سے دور ہو جائیں، اس لیے ضروری ہے کہ پہلے ان کی ذہن سازی کی جائے مثلاً جوتے سمیت نماز پڑھنا سنت ہے لیکن اگر کسی جگہ لوگ جاہل ہوں اور ایسا کام کرنے سے اختلاف اور فساد کا اندیشہ ہو تو ایسی سنت پر عمل کرنے کو آئندہ کے لیے مؤخر کیا جا سکتا ہے۔
لیکن حکیمانہ انداز سے انھیں اس کی اہمیت بتاتے رہنا ایک داعی کا اہم فریضہ ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ دین کے ضروری کام عوام کے ردعمل کے ڈر سے مؤخر کیے جا سکتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقعے پر بت شکنی کے عمل کو کسی رد عمل کے ڈرسے مؤخر نہیں کیا یعنی ہر بات اور کام کے کرنے کا ایک مناسب وقت ہوتا ہے لیکن یہ کلیہ فرائض و واجبات کے لیے نہیں، انھیں بروقت ہی بجالانا ضروری ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کو تعمیر کیا تھا اس کی سطح زمین کے برابر تھی اور اس کے دو دروازے تھے۔
ایک سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے سے نکلتے تھے تاکہ بھیڑ نہ ہو۔
لیکن جب قریش نے اس کی از سر نو تعمیر کی تو اپنے امتیازات اور اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے دو تصرف کیے:
(1)
۔
اسے سطح زمین سے کافی اونچا کردیا تاکہ سیڑھی کے بغیر کوئی اندر داخل نہ ہو سکے اس کے لیے ان کا محتاج رہے۔
(2)
۔
اس کا دروازہ ایک کردیا اور اس پر بھی اپنا آدمی بٹھا دیا تاکہ کوئی شخص ان کی اجازت کے بغیر اندر نہ جا سکے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی کہ اسے بنائے ابراہیمی کے مطابق کردیا جائے۔
لیکن اندیشہ تھا کہ قریش کے نومسلم حضرات اسے کہیں اپنے وقار کا مسئلہ نہ بنالیں اور آپ پر ناموری و تفاخر کا شبہ کریں کہ آپ نے قریش کے مشترکہ حق کو اپنی ذات کے لیے خاص کر لیا ہے۔
جب حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خواہش کا علم، ہوا تو انھوں نے اپنے دور حکومت میں بیت اللہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کے مطابق کردیا لیکن حجاج بن یوسف نے دوبارہ پھر اسی قریشی نقشے کے مطابق کردیا۔

تاریخی اعتبار سے بیت اللہ کی تعمیر سات مرتبہ ہوئی ہے سب سے پہلے فرشتوں نے اسے تعمیر کیا، پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ فضیلت حاصل کی، اس کے بعد عمالقہ، پھر جرہم، پھر قریش نے تعمیر کیا۔
اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کشف ستر(جسم سے چادر کے اترجانے)
کا واقعہ پیش آیا جس پر آپ بے ہوش ہو کر گرپڑے تھے۔
اس کے بعد حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ شرف حاصل کیا۔
آخر میں حجاج بن یوسف نے اسے قریش کی تعمیر کے مطابق کردیا۔
اب بیت اللہ اسی آخری تعمیر پر قائم ہے۔
(عمدۃ القاری: 2 /288)
۔

صحیح مسلم کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ قریش نے جب بیت اللہ کو دوبارہ تعمیر کیا تو اخراجات کے لیے وافر رقم مہیا نہ ہو سکی اس بنا پر انھوں نے حطیم کا حصہ کھلا چھوڑ دیا۔
باقی حصے پر چھت ڈال دی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی چاہتے تھے کہ پانچ چھ ہاتھ حطیم کے حصے پر بھی چھت ڈال دی جائے لیکن آپ کے پاس ان اخراجات کے لیے رقم نہ تھی اور نئے نئے مسلمانوں کے جذبات کا بھی خیال تھا۔
اس بنا پر آپ نے مصلحت اسی میں سمجھی کہ بیت اللہ کی تعمیر کا مسئلہ نہ چھیڑا جائے۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3245،(1333)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 126