صحيح البخاري
كِتَاب الْجَنَائِزِ -- کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
78. بَابُ اللَّحْدِ وَالشَّقِّ فِي الْقَبْرِ:
باب: بغلی یا صندوقی قبر بنانا۔
حدیث نمبر: 1353
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ , قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , قَالَ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْمَعُ بَيْنَ رَجُلَيْنِ مِنْ قَتْلَى أُحُدٍ، ثُمَّ يَقُولُ: أَيُّهُمْ أَكْثَرُ أَخْذًا لِلْقُرْآنِ؟، فَإِذَا أُشِيرَ لَهُ إِلَى أَحَدِهِمَا قَدَّمَهُ فِي اللَّحْدِ , فَقَالَ: أَنَا شَهِيدٌ عَلَى هَؤُلَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَأَمَرَ بِدَفْنِهِمْ بِدِمَائِهِمْ، وَلَمْ يُغَسِّلْهُمْ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا ہمیں لیث بن سعد نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن شہاب نے بیان کیا۔ ان سے عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک نے ‘ اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ احد کے شہداء کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک کفن میں دو دو کو ایک ساتھ کر کے پوچھتے تھے کہ قرآن کس کو زیادہ یاد تھا۔ پھر جب کسی ایک کی طرف اشارہ کر دیا جاتا تو بغلی قبر میں اسے آگے کر دیا جاتا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ میں قیامت کو ان (کے ایمان) پر گواہ بنوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بغیر غسل دئیے خون سمیت دفن کرنے کا حکم دیا تھا۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1353  
1353. حضرت جابر ؓ بن عبداللہ سے روایت ہے،انھوں نےکہا:نبی کریم ﷺ شہدائے احد سے دو دو آدمیوں کو جمع کرتے۔ پھر فرماتے:ان میں سے کس کوقرآن زیادہ یاد ہے؟جب ان میں سے کسی ایک کی طرف اشارہ کیا جاتا تو اسے لحد میں آگے رکھتے اور فرماتے:میں قیامت کے دن ان لوگوں کے متعلق گوہی دوں گا۔پھر انہیں خون سمیت دفن کرنے کا حکم فرمایا اور انھیں غسل بھی نہ دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1353]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں لحد کا ذکر ہے لیکن صندوقی قبر کا ذکر نہیں۔
ممکن ہے کہ دونوں شہیدوں کو لحد ہی میں رکھا گیا ہو۔
اور یہ بھی احتمال ہے کہ ایک کو لحد میں اور دوسرے کے لیے درمیان میں جگہ بنائی گئی ہو جسے صندوقی کہتے ہیں، کیونکہ قبر کی ایک جانب دو آدمیوں کو رکھنے کے لیے جگہ تیار کرنا مشکل کام ہے۔
(2)
عنوان میں صندوقی قبر کا ذکر کیا تاکہ لحد کی افضیلت کو ثابت کیا جائے، کیونکہ اس کا ذکر حدیث میں ہے۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ لحد ہمارے لیے اور شق ہمارے غیر کے لیے ہے۔
(سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3208)
اگر غیر سے مراد اہل کتاب ہیں تو ہمیں لحد ہی کو اختیار کرنا چاہیے اور اگر اس سے مراد اہل مکہ ہیں تو معاملہ کچھ ہلکا ہو جاتا ہے۔
دراصل مدینہ طیبہ میں بغلی اور صندوقی دونوں قبروں کا رواج تھا، چنانچہ حضرت ابو طلحہ انصاری ؓ لحد بنانے کے ماہر تھے جبکہ ابو عبیدہ بن جراح ؓ صندوقی قبر تیار کرتے تھے۔
اہل مکہ زمین نرم ہونے کی وجہ سے شق والی قبر تیار کرتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے لحد کو شق پر فضیلت دی۔
دراصل اس کا دارومدار زمین کی قسم پر ہے۔
اگر زمین نرم ہو تو شق بہتر ہے اور اگر زمین پختہ ہو تو لحد بنانا بہتر ہے۔
اسے رسول اللہ ﷺ نے پسند فرمایا ہے۔
والله أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1353