صحيح البخاري
كِتَاب الْجَنَائِزِ -- کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
80. بَابُ إِذَا قَالَ الْمُشْرِكُ عِنْدَ الْمَوْتِ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ:
باب: جب ایک مشرک موت کے وقت لا الٰہ الا اللہ کہہ لے۔
حدیث نمبر: 1360
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ , قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي , عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ , قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ" لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا طَالِبٍ الْوَفَاةُ جَاءَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ عِنْدَهُ أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أُمَيَّةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي طَالِبٍ:" يَا عَمِّ، قُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ كَلِمَةً أَشْهَدُ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ، فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ: وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ: يَا أَبَا طَالِبٍ أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْرِضُهَا عَلَيْهِ , وَيَعُودَانِ بِتِلْكَ الْمَقَالَةِ، حَتَّى قَالَ أَبُو طَالِبٍ: آخِرَ مَا كَلَّمَهُمْ هُوَ عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَأَبَى أَنْ يَقُولَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَا وَاللَّهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِيهِ: مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ سورة التوبة آية 113".
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں یعقوب بن ابراہیم نے خبر دی ‘ کہا کہ مجھے میرے باپ (ابراہیم بن سعد) نے صالح بن کیسان سے خبر دی ‘ انہیں ابن شہاب نے ‘ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے سعید بن مسیب نے اپنے باپ (مسیب بن حزن رضی اللہ عنہ) سے خبر دی ‘ ان کے باپ نے انہیں یہ خبر دی کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے۔ دیکھا تو ان کے پاس اس وقت ابوجہل بن ہشام اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ چچا! آپ ایک کلمہ «لا إله إلا الله» (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں) کہہ دیجئیے تاکہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کلمہ کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دے سکوں۔ اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا ابوطالب! کیا تم اپنے باپ عبدالمطلب کے دین سے پھر جاؤ گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برابر کلمہ اسلام ان پر پیش کرتے رہے۔ ابوجہل اور ابن ابی امیہ بھی اپنی بات دہراتے رہے۔ آخر ابوطالب کی آخری بات یہ تھی کہ وہ عبدالمطلب کے دین پر ہیں۔ انہوں نے «لا إله إلا الله» کہنے سے انکار کر دیا پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں آپ کے لیے استغفار کرتا رہوں گا۔ تاآنکہ مجھے منع نہ کر دیا جائے اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت «ما كان للنبي‏» الآية‏ نازل فرمائی۔ (التوبہ: 113)
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1360  
´ جب ایک مشرک موت کے وقت لا الٰہ الا اللہ کہہ لے `
«. . . أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ " لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا طَالِبٍ الْوَفَاةُ جَاءَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ عِنْدَهُ أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أُمَيَّةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي طَالِبٍ: " يَا عَمِّ، قُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ كَلِمَةً أَشْهَدُ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ، فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ: وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ: يَا أَبَا طَالِبٍ أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْرِضُهَا عَلَيْهِ , وَيَعُودَانِ بِتِلْكَ الْمَقَالَةِ، حَتَّى قَالَ أَبُو طَالِبٍ: آخِرَ مَا كَلَّمَهُمْ هُوَ عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَأَبَى أَنْ يَقُولَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَا وَاللَّهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِيهِ: مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ سورة التوبة آية 113 " . . . .»
. . . سعید بن مسیب نے اپنے باپ (مسیب بن حزن رضی اللہ عنہ) سے خبر دی ‘ ان کے باپ نے انہیں یہ خبر دی کہ` جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے۔ دیکھا تو ان کے پاس اس وقت ابوجہل بن ہشام اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ چچا! آپ ایک کلمہ «لا إله إلا الله» (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں) کہہ دیجئیے تاکہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کلمہ کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دے سکوں۔ اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا ابوطالب! کیا تم اپنے باپ عبدالمطلب کے دین سے پھر جاؤ گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برابر کلمہ اسلام ان پر پیش کرتے رہے۔ ابوجہل اور ابن ابی امیہ بھی اپنی بات دہراتے رہے۔ آخر ابوطالب کی آخری بات یہ تھی کہ وہ عبدالمطلب کے دین پر ہیں۔ انہوں نے «لا إله إلا الله» کہنے سے انکار کر دیا پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں آپ کے لیے استغفار کرتا رہوں گا۔ تاآنکہ مجھے منع نہ کر دیا جائے اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت «ما كان للنبي‏» الآية‏ نازل فرمائی۔ (التوبہ: 113) . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْجَنَائِزِ/بَابُ إِذَا قَالَ الْمُشْرِكُ عِنْدَ الْمَوْتِ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ: 1360]

فہم الحدیث:
اس سے معلوم ہوا کہ ہدایت دینے کا اختیار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی نہیں بلکہ صرف اللہ کے پاس ہے۔ [28-القصص:56] اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کچھ اختیار ہوتا تو ساری زندگی تعاون کرنے والے چچا کو آپ ضرور ہدایت عطا فرماتے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی مشرک کے لیے دعا و استغفار کرنا جائز نہیں اور نہ ہی اس کی نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے۔ امام نووی [المجموع 144/5-258]، شیخ البانی [احكام الجنائز ص/120] اور شیخ سلیم ہلالی [موسوعة المناهي الشرعية، 24/2] نے اسے حرام قرار دیا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ موت سے پہلے کلمہ پڑھنے والے کی مغفرت کی امید کی جا سکتی ہے خواہ اس نے ایک سجدہ بھی نہ کیا ہو اور جو کلمہ بھی نہ پڑھے وہ تو پکا جہنمی ہے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 14   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1360  
1360. حضرت مسیب بن حزن ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:جب ابو طالب مرنے لگا تو رسول اللہ ﷺ اس کے پاس تشریف لائے۔ وہاں اس وقت ابو جہل بن ہشام اور عبداللہ بن ابو امیہ بن مغیرہ بھی تھے۔رسول اللہ ﷺ نے ابو طالب سے فرمایا:اے چچا!کلمہ توحید لاإلٰه إلا اللہ کہہ دے تو میں اللہ کے ہاں تیری گواہی دوں گا۔ ابو جہل اور عبداللہ بن ابو امیہ بولے:ابو طالب! کیا تم (اپنے باپ) عبدالمطلب کے طریقے سے پھرتے ہو؟رسول اللہ ﷺ تو بار بار اسے کلمہ توحید کی تلقین کرتے رہے اور وہ دونوں اپنی بات دہراتے رہے حتیٰ کہ ابو طالب نے آخر میں کہا:وہ عبدالمطلب کے طریقے پر ہے اور لاإلٰه إلا اللہ کہنے سے انکار کردیا جس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اب میں اس وقت تک تیرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائے مغفرت کرتا رہوں گا جب تک مجھے اس سے منع نہ کردیا جائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:نبی کے لیے جائز نہیں (کہ وہ مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کرے اگرچہ وہ قریبی رشتہ دار ہی [صحيح بخاري، حديث نمبر:1360]
حدیث حاشیہ:
جس میں کفار ومشرکین کے لیے استغفار کی ممانعت کردی گئی تھی۔
ابوطالب کے آنحضرت ﷺ پر بڑے احسانات تھے۔
انہوں نے اپنے بچوں سے زیادہ آنحضرت ﷺ کو پالا اور پرورش کی اور کافروں کی ایذادہی سے آپ کو بچاتے رہے۔
اس لیے آپ نے محبت کی وجہ سے یہ فرمایا کہ خیر میں تمہارے لیے دعا کرتا رہوں گا اور آپ نے ان کے لیے دعا شروع کی۔
جب سورۃ توبہ کی آیت ﴿وَمَاکَانَ لِلنَبِی﴾ نازل ہوئی کہ پیغمبر اور ایمان والوں کے لیے نہیں چاہئے کہ مشرکوں کے لیے دعاکریں، اس وقت آپ رک گئے۔
حدیث سے یہ نکلا کہ مرتے وقت بھی اگر مشرک شرک سے توبہ کرلے تو اس کا ایمان صحیح ہوگا۔
باب کا یہی مطلب ہے۔
مگر یہ توبہ سکرات سے پہلے ہونی چاہیے۔
سکرات کی توبہ قبول نہیں، جیسا کہ قرآنی آیت ﴿فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا﴾ (غافر: 85)
میں مذکور ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1360   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1360  
1360. حضرت مسیب بن حزن ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:جب ابو طالب مرنے لگا تو رسول اللہ ﷺ اس کے پاس تشریف لائے۔ وہاں اس وقت ابو جہل بن ہشام اور عبداللہ بن ابو امیہ بن مغیرہ بھی تھے۔رسول اللہ ﷺ نے ابو طالب سے فرمایا:اے چچا!کلمہ توحید لاإلٰه إلا اللہ کہہ دے تو میں اللہ کے ہاں تیری گواہی دوں گا۔ ابو جہل اور عبداللہ بن ابو امیہ بولے:ابو طالب! کیا تم (اپنے باپ) عبدالمطلب کے طریقے سے پھرتے ہو؟رسول اللہ ﷺ تو بار بار اسے کلمہ توحید کی تلقین کرتے رہے اور وہ دونوں اپنی بات دہراتے رہے حتیٰ کہ ابو طالب نے آخر میں کہا:وہ عبدالمطلب کے طریقے پر ہے اور لاإلٰه إلا اللہ کہنے سے انکار کردیا جس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اب میں اس وقت تک تیرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائے مغفرت کرتا رہوں گا جب تک مجھے اس سے منع نہ کردیا جائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:نبی کے لیے جائز نہیں (کہ وہ مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کرے اگرچہ وہ قریبی رشتہ دار ہی [صحيح بخاري، حديث نمبر:1360]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں شرط کا جواب ذکر نہیں فرمایا، کیونکہ جب رسول اللہ ﷺ نے اپنے چچا کو بوقت موت کلمہ توحید پڑھنے کو کہا تو ممکن ہے کہ اس وقت اس کا کلمہ توحید پڑھنا اسے فائدہ دے سکتا ہو اور یہ اس کی خصوصیت ہو، کیونکہ جب موت کا یقین ہو جائے تو کلمہ توحید کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے اس کا جواب ذکر نہیں کیا تاکہ ایسے حالات سے دوچار انسان کو غوروفکر کرنے کا موقع دیا جائے۔
(فتح الباري: 282/3،283) (2)
اگر موت کی علامتیں ظاہر نہ ہوں اور نہ موت کا یقین ہی ہو تو موت کے وقت ایمان لانا فائدہ دے سکتا ہے، بصورت دیگر فائدہ مند ہونے کی توقع نہیں۔
ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابو طالب کو نزع سے پہلے ایمان کی دعوت دی ہو۔
فرعون نے بھی موت کے آثار دیکھ کر کہا تھا:
میں اس بات پر ایمان لاتا ہوں کہ اللہ صرف وہی ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں اس کا فرمانبردار ہوتا ہوں۔
(یونس90: 10)
فرعون کا یہ ایمان "إیمان البائس" تھا جو عذاب میں داخل ہونے کے بعد ظاہر ہوا۔
ایسے ایمان کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔
اس کے برعکس قوم یونس نے مشاہدہ عذاب کرتے ہی (عذاب میں داخل ہونے سے قبل)
ایمان اختیار کر لیا تھا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ﴾ (یونس98: 10)
پھر کیا قوم یونس کے علاوہ کوئی ایسی مثال ہے کہ کوئی قوم (عذاب دیکھ کر)
ایمان لائے تو اس کا ایمان اسے نفع دے؟ اسے تو اللہ تعالیٰ نے خود مستثنیٰ کر دیا ہے، لہذا اس قوم پر دوسروں کو قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
اس کے علاوہ کلمہ فرعون میں ایمان صحیح کے علاوہ دوسرے احتمالات بھی تھے کیونکہ اس نے بنی اسرائیل کا حوالہ دیا تھا کہ میں اس اللہ پر ایمان لایا جس پر نبی اسرائیل ایمان لائے ہیں۔
ممکن ہے کہ اس وقت خود اس کے ذہن میں اللہ کے متعلق حقیقی معرفت و توحید حاصل نہ ہوئی، نیز کلمہ فرعون کے متعلق خود اللہ تعالیٰ نے جواب دیا ہے:
﴿آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ ﴿٩١﴾ ) (یونس91: 10)
اب تو ایمان لاتا ہے جبکہ اس سے پہلے نافرمانی کرتا رہا اور مفسد بنا رہا۔
بہرحال موت کے قریب نزع کی حالت شروع ہونے سے پہلے تک ایمان لائے تو وہ معتبر ہوتا ہے۔
اگر نزع شروع ہو جانے کے بعد کلمہ توحید کہے تو اسے ایمان البائس کہا جاتا ہے جو جمہور کے نزدیک معتبر نہیں۔
والله أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1360